کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 99
اگر یہ کام نہ ہوتا تو پھر کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس پہلو میں جو کچھ حاصل ہوا ہے ، ان پر توجہ کی جاتی ہے۔ کسی کام کی افادیت کو جانچنے کا یہ ایک صحت مندانہ طرزِ عمل ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ا س امر کا جائزہ لیا جائے کہ اس کام کے کون سے رُخ باقی رہ گئے ہیں ۔ کن اُمور میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے او رکون سے گوشے ایسے ہیں جن کی طرف توجہ نہیں ہوسکی۔لازمی سی بات ہے کہ ہرکام میں بہتری اور اصلاح کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور کمال کی کوئی حد نہیں ۔ یہ انسان کے تخیل کی پرواز ہی ہے کہ وہ بلند مقاصد تک پلک جھپکتے میں پہنچ جاتا ہے لیکن ان مقاصد کو عملی پیکر عطا کرنے کیلئے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ سابقہ اوراق میں دینی مدارس کے جس کردار کا جائزہ ہم نے لیا ہے، وہ ان کا مثبت پہلو ہے جبکہ ذرائع ابلاغ میں ہمیشہ ان کو منفی پہلو سے پیش کیا اور اسی کے مطابق جانچا جاتاہے۔ یہی وجہ کہ ہمیشہ ان کے بارے میں ان سَلبيات کا تذکرہ کیا جاتاہے جو وہ بوجوہ حاصل نہیں کرپائے لیکن ان پہلوؤں کو کبھی شمار نہیں کیا جاتا جو ان کی و جہ سے ہمارے معاشرے کو حاصل ہیں ۔ دینی مدارس انسانی اور مالی وسائل کی جس قلت میں ، اپنے زورِ بازو پر انحصار کرکے اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ، ایسے میں اس اعتبار سے ان کی جانچ کرنا کہ انہوں نے کونسے گوشے باقی چھوڑے ہیں ، ایک زیادتی ہے۔ مدارس کو چھوڑیے ، اگر پاکستان میں باقی کاموں کے بارے میں بھی ایسا جائزہ لیا جائے جو ملکی وسائل کے ایک بڑے حصے کو صرف کرتے ہیں تو اس نوعیت کے اعتراض کا وہ بھی سامنا نہیں کرپائیں گے۔ اس سلسلے میں سرکاری تعلیمی اداروں کی مثال دی جاسکتی ہے۔ اگر ان تعلیمی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ اس اعتبار سے لیا جائے جو دنیا کے دیگر نظام ہائے تعلیم اپنی قوم کو دے رہے ہیں ، تو اس سلسلے میں شرمساری کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ دیگر ممالک کے تعلیمی نظام اپنی قوم کو نامور سائنسدان، مخلص سیاست دان، ذمہ دار شہری اور مختلف میدانوں کے ماہرین کی ایسی بڑی کھیپ دے رہے ہیں ، جو ان کے ممالک میں ترقی کی مضبوط بنیاد قائم کرتے ہیں ۔ جبکہ ہمارا سرکاری نظامِ تعلیم تو معیاری تعلیم دینے سے ہی قاصر ہے، اس تعلیمی خلا کو پورا کرنے کے لئے بے شمارپرائیویٹ تعلیمی ادارے میدان میں اُترے ہوئے ہیں ، اورآج تعلیمی امتیاز سرکاری اداروں کے بجائے بعض پرائیویٹ اداروں