کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 98
کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ ایسے ہی ملک بھر میں حسن قراء ت کے مقابلوں میں جو قاری شریک ہوتے ہیں ، وہ حسن قراء ت کے لئے علم تجوید مدارس سے ہی پڑھتے ہیں ۔ ایسے علوم کی فہرست بہت طویل ہے جن کے لئے صرف مدارس ہی مصروفِ عمل ہیں ۔ اُن میں علم وراثت، علم قراء ات، علم رسم القرآن وغیرہ کا شمار کیا جاسکتا ہے۔یہ علوم سرکاری سطح پر کہیں نہیں پڑھائے جاتے۔ جہاں تک باقی علوم مثلاً تفسیر قرآن، مطالعہ احادیث، اصول تفسیر، اصول حدیث، فقہ واصول فقہ کا تعلق ہے، یا آلی علوم مثلاً نحو وصرف یا منطق وغیرہ تو ان کی تعلیم سرکاری اداروں میں صر ف ابتدائی درجے کی ہوتی ہے۔ ان خالصتاً اسلامی علوم میں بصیرت، درک اور مہارت دینی مدارس کے باہرگویا ناپید ہے۔ مدارس کے باہر جن لوگوں نے ان علوم کے بارے میں نمایاں کام کیا ہے، ان کا زیادہ ترکام ان علوم کے بارے میں منفی یا معترضانہ نوعیت کا رہا ہے، الا ما شاء اللہ۔ بہت سے سینئر افسران کو ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد قرآن کی تفسیر یا حدیث کا شوق جب چراتا ہے تو وہ اسلامی تعلیمات کا حلیہ بگاڑنے کے علاوہ کوئی قابل قدرکام نہیں کرپاتے۔کیونکہ دیگر علوم کی طرح اسلامی علوم پر بھی کام کرنے کے لئے باقاعدہ تعلیم اور تربیت وتجربہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے اس دعوے کا یہ مطلب خدانخواستہ نہیں ہے کہ مدارس کے باہر اسلام کی خدمت کا وجود نہیں ہے، اسلام کی خدمت اورچیز ہے اور علوم اسلامیہ میں درک وبصیرت اور مفہوم رکھتی ہے۔ الحمد للہ پاکستان میں بعض ایسی جماعتیں اور نمایاں شخصیات بھی پائی جاتی ہیں ، جن کا قابل قدر کام دینی مدارس کے لئے بھی درخشندہ مثال ہے۔اللہ ان سے دین کی مزید خدمت لے۔ آمین! دینی مدارس کا یہی وہ کردار ہے جوملک میں اسلامی اساس کو مضبوط کرتاہے۔آپ غور کیجئے کہ کیا مذکورہ بالا کردار میں کسی منفی نوعیت کی سرگرمی پائی جاتی ہے یا دین کے فروغ کے لیے اصلاح ودعوت کا یہ عمل اہل دین کا امتیاز اور فرض ہے۔ اس کے باوجود مدارس کو اِسی کردار پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ کسی کام کی افادیت جانچنے کے دو پہلو ہوتے ہیں ، ایک پہلو تو یہ کہ دیکھا جائے کہ اس کام کے ذریعے کون سے مقاصد پورے ہوئے ہیں ، کون سے خلا ایسے ہیں جو پر ہوئے ہیں ۔