کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 95
میں اُنہیں فتویٰ دے سکے۔ حتیٰ کہ جو لوگ دینی مدارس سے فیض یافتہ نہیں ہیں وہ خود بھی فتویٰ دینے کا اپنے آپ کو اہل نہیں پاتے اور لوگوں کو مدارس کے علما کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ اس لحاظ سے پاکستان کے عوام کسی پیش آمدہ مسئلہ پر شرعی نقطہ نظر جاننے کے لئے صرف مدارس کے علما پر ہی اعتماد کرتے ہیں ۔چنانچہ طلاق و رضاعت کا کوئی مسئلہ یا وراثت کی کوئی تقسیم ،ایسے ہی عبادات ومعاملات میں کوئی سوال پیش آئے تو اس کا حل صرف مدارس کے علما سے ہی کروایا جاتا ہے۔ (2) ہر معاشرہ میں کچھ رسوم ووراج پائی جاتی ہیں ۔ پاکستان کے اسلامی معاشرے میں عوام کی ان معاشرتی ضروریات کی تکمیل بھی صرف علماء دین ہی کرتے ہیں ۔ ان معاشرتی ضروریات میں نکاح، جنازہ، ولادت جیسی کئی رسوم شامل ہیں ۔ ان میں سے ایسے رسوم ورواج بھی ہیں جو ہندوانہ تہذیب کے زیر اثر ہمارے ہاں رواج پا گئے ہیں ، لیکن ان رسوم کے غلط یا درست ہونے سے قطع نظر ان کے لئے علماء مدارس کی ہی خدمات لی جاتی ہیں ۔ (3) مسجد کسی بھی معاشرتی یونٹ کی ایک اکائی ہے اور اسلام میں مقامِعبادت ہونے کی بجائے مسجد مسلمانوں کی تمام اجتماعی ضروریات کے لئے ایک مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ دورِ نبوی میں مسجد عبادات کے علاوہ عدل وانصاف، ضیافت ومہمان نوازی، مرکز ِتعلیم، مرکز حکومت اور مشاورت و کمیونٹی سنٹر کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔گوکہ بعد میں بادشاہوں نے مسجد کے تقدس سے باہر نکل کر اپنے شاہی دربار سجا لیے کیونکہ ان کے دنیادارانہ اُمور کی مسجد متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ البتہ اس کے باوجود مسجد کا مرکزی تشخص کافی حد تک قائم ہے۔ پاکستان کی مساجد یعنی اسلامی کمیونٹی سنٹرز 100 فیصد مدارس کے فیض یافتہ علما کے پاس ہیں ۔ ان مدارس میں خطباتِ جمعہ کے ذریعے مدارس کے علما کو اپنے خیالات عوام تک پہنچانے کے وسیع مواقع میسر آتے ہیں ۔ان مساجد میں امامت کے فرائض بھی یہی مدارس کے فاضلین انجام دیتے ہیں ۔ یاد رہے کہ پاکستان میں خطبہ جمعہ 99 فیصد مدارس کے علما ہی دیتے ہیں ۔ ان مساجد میں محلے کے بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانا ہو یا نوجوانوں کو اسلام سے آگاہ کرنے کا کوئی جزوقتی کورس، یہ خدمات بھی انہی علما کے حصہ میں آتی ہیں ۔ اگر مسجد کے امام وخطیب باصلاحیت اور متقی شخصیت ہوں تو محلے کے رہائشی اپنے عام امور میں اُن سے مشورہ