کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 94
علیحدہ انٹرویو کرچکے ہیں ، مدارس کے موضوع پر کی جانے والی اپنی تحقیق کے سلسلے میں انہوں نے کئی سوالات کئے ۔ آغاز میں مدار س کے بارے میں ان کا موقف منفی ہوتا ہے، لیکن آخر کار دونوں ٹیموں نے ہمارے نقطہ نظر سے اتفاق کیا اور مدارس کے مثبت کردار کو سراہا۔
مدارس کے بارے میں مختلف نوعیت کے اعتراضات کئے جاتے ہیں اور ان کے خلاف پروپیگنڈے کا بازار گرم ہے لیکن ان کی اس مثبت کارکردگی سے پاکستانی عوام کو کبھی متعارف نہیں کرایا جاتا، ذیل میں ان کی خدمات کا ایک مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے :
دینی مدارس کی خصوصیات
دینی مدارس یوں تو پرائیویٹ سطح پرکام کرنے والے چند ایک ادارے ہیں ، جن میں عموماً معمولی استعداد کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخل کر ا دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ تو اُنہیں مساکین اور یتیم بچوں کے مراکز سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ۔ غیروں سے زیادہ اپنوں کو ان پر اعتراضات ہیں ۔ کوئی انہیں فرقہ واریت کا طعنہ دیتا ہے تو کوئی تنگ نظری کا مجرم ٹھہراتا ہے۔ کہیں قرآن کو نظر انداز کرنے کا الزام دیا جاتاہے تو کہیں انتہا پسندی یا دہشت گردی کی پھبتی کسی جاتی ہے، اس کے باوجود دینی مدارس اپنے کام میں مگن ہیں ، اور اپنے اس کام کی بدولت پاکستانی معاشرے میں اپنا وزن رکھتے ہیں ۔
کوئی تعلیمی ادارہ یا نظام تعلیم بذاتِ خود قومی تعمیر کے کسی منصوبے میں شریک نہیں ہوتا بلکہ وہ ایسے افرادِ کار تیار کرتا ہے یا اپنے ہاں زیر تعلیم بچوں کی ایسی ذہن سازی اور تربیت کرتا ہے کہ اس علم کی تکمیل کے بعد وہ طلبہ معاشرے میں مخصوص کردار ادا کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں ۔ اس لحاظ سے دینی مدارس اسلامی دنیا میں اسلام کے نام پر ہونے والے تمام کاموں کی ایک نرسری کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اسلامی منصوبوں کو یہاں سے تازہ خون فراہم ہوتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے معاشرے میں نفوذ کرسکتے ہیں ۔ جہاں تک مدارس سے فیض یافتہ علما پر عوام کے اعتماد کا تعلق ہے تو درج ذیل حقائق ہمارے پیش نظر رہنے چاہئیں :
(1) پاکستان میں روزمرہ پیش آنے والے تمام مسائل میں شریعت کی رہنمائی کے لئے عوام الناس دینی مدارس کے فیض یافتگان کی طرف رخ کرتے ہیں ۔ کسی بڑے سے بڑے دانشور یا اسلامیات کے ماہر کو پاکستان کا معاشرہ یہ مقام دینے کے لئے تیار نہیں کہ وہ ان کے مسائل