کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 93
”ہم دینی مدارس کو سرے سے ختم کرنے پر قادر نہیں ہیں البتہ سرکاری سطح پر دار العلوم کے قیام کے ذریعے ان کے اثر ورسوخ کوکم کرسکتے ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم ان مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی ، فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے پر بھی زور ڈال رہے ہیں تاکہ یہ طلبہ قومی دھارے میں آسکیں ۔“ (ماہنامہ ’ساحل‘ کراچی، فروری، ص 88)
جہاں تک پاکستانی حکومت کا تعلق ہے تو وہ مدارس کے بارے میں کوئی اہم پیش رفت کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکی۔ سب سے پہلے مدارس کو زکوٰة فنڈ سے ملنے والی معمولی امداد کو کلی طورپر بند کیا گیاپھر مدار س کو بھرپور امداد کے نام پر حکومت نے زیر بار کرنا چاہا تو مدارس نے ایسی امداد کو قبول نہ کیا، بعد ازاں مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیالیکن اس سے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے۔ کچھ عرصہ سے مدارس اور مساجد کو رجسٹریشن کے بغیر قائم نہ کرنے کی پابندی بھی لگائی جاچکی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت مزید اقدامات کے بجائے بیان بازی اور ابلاغی قوت کے ذریعے فضا کو اس حد تک سازگار بنانے میں مصروف ہے کہ جب وہ مدارس پر ہاتھ ڈالے تو قوی مزاحمت کے امکانات باقی نہ رہیں ۔
ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس سے وابستہ لوگ اپنی قوت کا جائزہ لیں ، اور مسلمان عوام کو بھی اپنی کارکردگی سے متعارف کرائیں تاکہ جن عوام کی مدد سے اُنہوں نے برطانوی سامراج کا سامنا کیا، اُن کی مدد سے آج بھی وہ سرخرو ہو سکیں ۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مدارس کی یہ خدمات اگر علماء کرام کے بے مثال عزم وہمت کا نتیجہ ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کا تعاون بھی شامل رہا ہے۔اگر برصغیر کے مسلمان ان اداروں کے تحفظ کے لئے حساس نہ ہوتے تو آج علماء کرام ان قابل قدر خدمات کے کبھی امین نہ ہوتے۔ ان اداروں کی بنیادوں میں علماء کے انسانی وسائل (Human resources) اور مسلمان عوام کے مالی وسائل (Financial support)شامل ہیں !!
اس وقت دینی مدارس مغربی دنیا کا سب سے مرغوب موضوع ہیں ۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے چھپنے والی کتب ورپورٹس تو ایک طرف رہیں ، مغربی یونیورسٹیوں میں پاکستان کے دینی مدارس کے بارے میں غیر معمولی تحقیقی کام ہورہا ہے۔ خود راقم الحروف کا گذشتہ چند ماہ میں مدارس پر یورپ کی دو بڑی یونیورسٹیوں (آکسفورڈ اور کیلی فورنیا یونیورسٹی) کے طلبہ علیحدہ