کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 91
برطانوی سامراج نے ان مدارس کو ختم کرنے کی بہت کوشش کی اور اس حد تک انہیں پیچھے دھکیلا کہ انہیں ان کے قابل ذکرکردار کی اُمید نہ رہی لیکن آج ان مدارس سے وابستہ لوگوں نے اپنی خدمات کے بل بوتے پریہ ثابت کردکھا یا کہ اب بھی اسلام کے سب سے بڑے قلعے یہی ہیں اور دورِ حاضر کی سب سے بڑی قوت انہی سے خائف ہے۔ ہماری رائے میں موجودہ حالات میں مدارس کو ایک بار پھر وہی چیلنج درپیش ہیں جو برطانوی سامرا ج کے دو رمیں پیش آئے تھے۔ مدارس کو اپنی بقا کی جنگ دوبارہ لڑنا ہوگی، کیونکہ اس دور کا کفر ان کی کارکردگی پر بری طرح خندہ زن ہے اور اُنہیں نیست ونابود کرنے پر تلا ہوا ہے۔ گذشتہ سال مارچ میں عراق کے دورے پر آئے ہوئے امریکی عہدیدار نے کہا :
”پاکستان کے دینی مدرسے انتہا پسندی کو فروغ دینے کا بڑا ذریعہ ہیں “
امریکہ کوعراق سے نہیں اُن مدرسوں سے زیادہ خطرہ ہے جہاں 7 لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں !
”امریکہ کے سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل افیرز کے ڈائریکٹر انور ڈی برگ نے ایشین ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے دینی مدرسوں کے بارے میں کہا کہ امریکہ نے 1980ء کے عشرے میں کوتاہ نظری پر مبنی جو پالیسیاں تشکیل دی ، ان کے نتیجے میں پاکستان میں دینی مدرسوں کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان کے 10 ہزار مدارس میں 7 لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں اور سعودی عرب اپنے شہریوں کے ذریعے ان کو 30 کروڑ ڈالر کی سالانہ امداد دے رہا ہے۔“ (روزنامہ ’جنگ‘ لاہور: 10/مارچ 2004ء)
امریکی نائب وزیر دفاع اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ
”اسلامی دینی مدارس لاکھوں مسلم بچوں کو انتہاپسندانہ دینی تعلیم پر اُبھارتے ہیں ۔ ان کی سرگرمیوں کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے بجٹ کی ترسیل پرقدغنیں عائد کی جائیں ، اس سے بھی بہتر ذریعہ یہ ہے کہ مقامی طور پر ان مدارس کے مخالف افراد، رجحانات او راداروں کو تقویت اور مدد پہنچائی جائے تاکہ وہ انتہاپسندی کے سرچشموں کا مقابلہ کرسکیں ۔“
(’اسلامی دینی تعلیم پر امریکی یلغار‘ مجلہ فقہ ِاسلامی، فروری 2005ء ، ص 52)
امریکی کانگریس نے مدارس کو مالی امداد کاسلسلہ روکنے کے لئے کانگریس ارکان پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے جنہوں نے اس سلسلے میں مختلف اقدامات کیے ہیں ۔ ان اقدامات میں سے یہ ہے کہ سعودی عرب پر دینی مدارس سے تعاون کرنے والے اہم اداروں کو