کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 90
باوجود دو صدیوں کے لگ بھگ سے مدارس کا یہ موجودہ نظام قائم ودائم چلا آرہا ہے اور وطن کے نونہالوں کو اسلام سے روشناس کراتا آرہا ہے تو اس کے پیچھے عظیم لوگوں کی قابل قدر خدمات ہیں ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو زمانے کا ساتھ دینے کی بجائے ہوا کے مخالف سمت میں اس شان سے چلتے ہیں کہ ان کے قدم پل بھر کو ڈگمگاتے نہیں ۔ ہواؤں کو بدل دینے کا ایسا قوی عزم ہو تب ہی ایسے زرّیں کارنامے رقم کئے جاسکتے ہیں ۔ ان مدارس کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے شاندار ماضی کا تعلق ہم سے منقطع نہیں ہونے دیا اور اس سنہرے دور کو واپس لوٹانے کی کڑی بھی یہی دینی مدارس ہیں جو اگر ختم ہوجائیں تو درمیان سے وہ سلسلہ منقطع ہوجائے جو ملت کے احیا اور شاندار ماضی کی طرف لوٹنے کا راستہ ہے۔
بہت سے مسلمانوں کے ذہن میں یہ مغالطہ پایا جاتاہے کہ دینی مدارس کی تاریخ کوئی زیادہ پرانی نہیں ۔ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ مدارس ہی مسلمانوں کا اصل نظامِ تعلیم ہیں ۔ انہی مدارس سے مسلمانوں نے صدیوں تحصیل علم کرکے اُس علم وفن کی بنا ڈالی جس پر مزید ترقی کرکے آج یورپ سائنس و ٹیکنالوجی کے عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ مسلمانوں کی عظیم علمی ہستیاں اسی نظامِ تعلیم کی پیدا وار ہیں ۔ برصغیر میں انگریز کے آنے سے قبل یا دیگر اسلامی ممالک میں استعمار کے تسلط سے قبل یہی مدارس وہاں کا تعلیمی حوالہ اور واحد نظامِ تعلیم تھے، لیکن جب اُنہیں سرکاری سرپرستی سے محروم کرکے، ان کے وسائل ضبط کرکے، ان کے وابستگان اور فیض یافتگاں پر سرکاری ہتھکنڈوں سے دنیا تنگ کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں ، تو اُس دور میں مسلمان عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت ان اداروں کو اپنے دینی اقدار کے تحفظ اور دینی تعلیم وتربیت کے فروغ کے لئے خونِ جگر سے زندہ رکھا۔ اس سے قبل یہ اسلامی حکومت کی سرپرستی میں چلتے تھے اور معاشرے کے تمام طبقات کے لئے ماہرین فراہم کرتے تھے، اب یہ نجی وسائل کے بل بوتے پر آگے بڑھنے لگے اور صرف دینی تعلیم اور دینی روایات کے احیا کے لئے وقف ہوگئے۔ چنانچہ اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والے یہ ادارے جو اَب صرف دینی علوم کے فروغ کے لئے مختص ہیں ، اپنی حالیہ نوعیت کے اعتبار سے کو ئی زیادہ قدیم نہیں ، البتہ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ دینی مدارس مسلمانوں کے اُنہی مدارس کے وارث ہیں جو صدیوں سے ان کے ہاں علم وتعلّم کی ضمانت رہے ہیں ۔