کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 89
رفت ہوئی ہے۔ جن باتوں کی حکومت پچھلے سال تردید کررہی تھی، وہی چیزیں کھل کر اور زیادہ شدت سے اب روبہ عمل آرہی ہیں ۔ ہم اس موضوع پر تفصیل سے اپریل 2004ء کے شمارے میں اپنے خیالات وخدشات کو پیش کرچکے ہیں ۔ ان بہت سے موضوعات پر اہل علم لکھتے رہیں گے، اور ان کے لئے بہت سے رسائل وجرائد سرگرم بھی ہیں ۔ البتہ دینی مدارس جو اِس حالیہ امریکی مہم کا خاص ہدف ہیں ، ان کے بارے میں تاحال کوئی تفصیلی بحث ہماری نظر سے نہیں گزری، یوں بھی دینی مدارس سے خود وابستہ ہونے کے ناطے ان کے دفاع اور قارئین کو اس سے آگاہ کرنے کا فرض ہمیں ادا کرنے کی زیادہ ضرورت ہے، اس بنا پر ہم یہاں صرف دینی مدارس کے حوالے سے اپنے خیالات اور حالیہ مہم میں ان کو موضوع بنانے کی وجوہات پر بحث کریں گے۔ کسی بھی مسئلے پر پیش قدمی سے قبل اس کے متعلق ذرائع ابلاغ میں ایسی فضا کو تخلیق کیا جاتا ہے جس کے بعد مطلوبہ مقاصد کی تحصیل کے مواقع نسبتاً آسان ہوجاتے ہیں ۔ دینی مدارس اور ذرائع ابلاغ دینی مدارس مسلمانانِ برصغیر کی ایسی درخشندہ روایت ہیں جن سے اُنہوں نے اپنے دین وایمان کو محفوظ کرنے کے لئے اپنے ذاتی وسائل پر انحصار کیا ہوا ہے۔یہ مدارس تاریخ میں ایسی تابندہ مثال ہیں جس کی نظیر نہ صرف دوسری قوموں بلکہ خود دوسرے مسلمان ممالک کے ہاں بھی نہیں ملتی ۔ اِنہی مدارس کو باقی رکھنے کے لئے یہاں کے مسلمانوں نے قربانیوں اور عزم وہمت کی ایسی تاریخ رقم کی ہے جس کا مطالعہ ایمان ویقین کو حرارت بخشتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی بہ نسبت ملکی وملی دردکی زیادہ فراوانی، معاشرہ میں اسلامی اقدار کی بہتر پاسداری اور عوام الناس کی اسلام سے گہر ی وابستگی کا جو واضح فرق دیکھنے میں آتا ہے، اس کے پیچھے ان مدارس کی زرّیں خدمات ہی کارفرما ہیں ۔ ان مدارس کو دنیا بھر کی سب سے بڑی این جی او مان لینے اور ان کے محکم کردار کو تسلیم کرنے کے باوجود ذرائع ابلاغ میں مدارس کے بارے میں تصویر کا ہمیشہ ایسا رخ پیش کیا جاتا ہے ، جس کے بعد ایک عام مسلمان کے ذہن میں ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ شکوک وشبہات جنم لیں ۔ سوچنے کا مقام ہے کہ اس قدر بھرپور ابلاغی مہم اوروافر سرکاری وسائل کے
[1] صفوۃ الصفوۃ:۲/۹۹، ابو الفرج عبد الرحمن بن علی،دار المعرفہ، بیروت۱۹۷۹ء،تحقیق: رواس قلعہ جی