کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 88
وطن و ملت کے لئے بہت سی پریشانیوں کا سبب بنا ہوا ہے۔
گذشتہ دنوں انڈیا کے دورے پر آئے ہوئے پرنس آغا خاں نے انڈین حکومت کو نئے دور کے تقاضوں سے متعارف کراتے ہوئے ’ارشاد‘ فرمایا :
”روحِ عصر کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور روح عصر یہ ہے کہ ایک عالمی آفاقی برادری جنم لے رہی ہے جس کا منبع نظم وانصرام ایک دستور ہوگا یعنی یہ عالمی وآفاقی اور انسانی برادری ایک دستورکے ماتحت ہوگی۔ اس میں جغرافیائی حالات اور مختلف قبائلی ونسلی تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ اب یہ حقیقت بن چکی ہے جس کا جتنا جلد ادراک کرلیا جائے، دنیا کے لئے اتنا ہی بہتر ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قومی ریاستوں کا دور اب ایک قصہ پارینہ ہوگیا، اب عالمی حکومت ایک حقیقت بن چکی ہے، کوئی مانے یا نہ مانے یہ ہوکر رہنا ہے۔ اگر اس کو تسلیم کرلیا جائے اور اس کا ساتھ دیا جائے تو تصادم اور تخریب سے بچا جاسکتا ہے۔“ (سہ روزہ دعوت دہلی: یکم دسمبر 2004ء)
اس عالمی قبضہ کے لئے امریکہ کی ضرورت یہ ہے کہ وہ ایسے تمام نظریات کو ابتدا میں ہی پنپنے سے ہی روک دے جو کل کلاں اس کی برتر قوت کے لئے چیلنج بن سکتے ہیں ۔ اس جملے میں یہ لطیف اشارہ بھی موجود ہے کہ اس دور میں دہشت گردی کا تصور اب یہ بن گیا ہے کہ جو اس عالمی سپر قوت کے مقاصد میں حائل ہو اور ا س کو اپنی من مانی سے روکتا ہو، گویا وہ تصادم اور تخریب کا راستہ اختیار کرتا ہے، وہ یہ جواز دیتا ہے کہ اپنی عالمی حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے امریکہ اس کے خلاف جارحیت استعمال کرے۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ کو دہشت گردانہ کاروائی کے لئے موقعہ فراہم نہ کرنا ہی اس دور میں دہشت گردی ہے۔جو مظلوم ظالم کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، اس نئے عالمی دور کا دستور یہ ہے کہ اس کے ظلم کا ہاتھ روکنا دہشت گردی ہے!!
’سافٹ پاور‘ کے مختلف پہلووں کا جائزہ تو اس مضمون میں ممکن نہیں ، عقل وشعور رکھنے والے ابلاغی قوت کو سمجھتے اور جانتے ہیں ، ایسے ہی مختلف اسلامی ممالک میں جاری تعلیمی جنگ کی بہت سی تفصیلات بھی اخبارات میں آرہی ہیں اور یہ موضوع بھی علیحدہ سے تفصیلات کا متقاضی ہے۔ پاکستان میں سرکاری تعلیم کے حوالے سے آغاخانیوں کو سونپا جانے والا کردار بھی ایک سال سے ہمارے ملک میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے اور حالیہ دنوں اس میں مزید پیش