کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 87
مجبور کرنے کی بجائے ایسے طریقے استعمال کیے جائیں جن میں شعور کے بغیر وہ از خود ہی ان ترجیحات کو اپنے فکر وعمل میں اپنا لے جو اس کا حریف اُس سے چاہتا ہے۔ گویا آسان الفاظ میں جنگی یا حریفانہ حکمت ِعملی کی بجائے غیرمحسوس طریقے سے مقابل کے عقیدہ و نظریہ میں ایسی ترمیم روبہ عمل لائی جائے جس کے بعد وہ اپنے مقابل کے ذہن سے ہی سوچنے لگ جائے اور مزاحمت کی ضرورت ہی نہ رہے۔جناب پروفیسر خورشید احمدلکھتے ہیں :
”طاقت کا یہ پہلو کہ دوسرے وہ چا ہنے لگیں جو آپ چاہتے ہیں ۔ ’سافٹ پاور‘ کا انحصار سیاسی ایجنڈے کو ترتیب دینے کی اس قابلیت پر ہوتا ہے جو دوسروں کی ترجیحات کا تعین کرے۔ اس حکمت ِعملی پر موٴثر عمل کے لئے ’ابلاغ کی قوت‘ کا استعمال مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ اور اقتصادی قوت کا ہدف افکار، اقدار او رکلچر کی تبدیلی ہے، اسی نئی جنگ میں اصل مزاحم قوت مقابل تہذیب کا عقیدہ، نظریہ ، اُصول او راقدار بن جاتے ہیں ۔ اسلامی دنیا میں عوام کی اسلام سے وابستگی اور اپنی تہذیب اور اقدار کے بارے میں استقامت مغرب کیلئے سب سے بڑا دردِ سر بنی ہوئی ہے۔“ (’روشن خیال اعتدال پسندی ‘ ترجمان القرآن، جولائی 2004ء )
فی الوقت امریکہ مسلم ممالک میں دونوں طریقوں کو اپنا رہا ہے۔ بعض ممالک میں سختی اور بزورِ بازو اپنے مقاصد کی تکمیل کروانا اور بعض کو چالبازانہ حکمت ِعملی کے ذریعے اپنے مقاصد سے ہم آہنگ کرنا۔ پاکستان اور اسلامی دنیا کے اہم ممالک میں ان دنوں دوسرا طریقہ استعمال کرنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ اس میں ابلاغی قوت کے ذریعے مخالف قوم کے نکتہ نظر کو متاثر کیا جاتاہے۔ سروے، معلومات اور اعداد وشمار کے سائنسی ہتھکنڈوں سے اُنہیں ذ ہنی طورپر مرعوب اور آہستہ آہستہ اپنے نظریات کا قائل کیا جاتا ہے۔ مختلف سفارتی وفود یا سیاسی بیانات کے ذریعے ملک میں ایک مخصوص فضا سازگار کی جاتی ہے، یہ ذرائع ابلاغ ملک کی نظریاتی سرحدوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔
اس طریقہ کا دوسرا اہم ذریعہ نصاب اور نظامِ تعلیم کی تبدیلی ہے۔باخبر لوگ جانتے ہیں کہ نصاب او رنظامِ تعلیم کی تبدیلی کا یہ امریکی دباؤ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ مصر، کویت، یمن، افغانستان ،عراق، ملائشیا بالخصوص سعودی عرب تک پھیلا ہوا ہے۔اس نصاب ونظامِ تعلیم کا دباؤ ہر نئے دن بڑھتا جارہا ہے اور اس حوالے سے پاکستان میں آغا خانیوں کا کردار ہر محب ِ