کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 86
کتاب: محدث شمارہ 286 مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکرونظر دینی مدارس کا امتیازی کردار اور امریکی مہم ذرائع ابلاغ اور عالمی حالات پر نظر رکھنے والا ہر آدمی جانتا ہے کہ اس دور کی سپر طاقت مسلمانوں کے تعلیمی نظام کے درپے ہے، خصوصاً وہ نظامِ تعلیم جس کے ذریعے مسلمان اپنے دینی عقائد کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اسلامی تصورات و نظریات کو پختہ کرتے ہیں ۔ اخبارات میں آئے روز ایسی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں جن میں ایک طرف سرکاری نظامِ تعلیم کا قبلہ درست کرنے کے اقدامات کا تذکرہ ہوتا ہے تو دوسری طرف دینی مدارس کو بھی اصلاح اور توازن واعتدال کا درس دیا جاتا ہے۔ تواتر سے شائع ہونے والی ان خبروں کے بعد ہر آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ امریکہ کوہمارے نظامِ تعلیم سے آخر ایسے کونسے خطرات لاحق ہیں جن کی وجہ سے وہ ہماری حکومت کے ذریعے ان میں ہر قیمت پر اصلاح وترمیم کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے۔ فرد کی ذ ہنی وفکری تعمیر میں والدین، ماحول اور معاشرہ سب ہی اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن جدید دور کے مخصوص حالات میں نمایاں ترین کردار اس درسگاہ کا ہوتا ہے جہاں ایک بچہ روزانہ اپنے دن کا اہم ترین حصہ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گزارتا ہے۔ ان اساتذہ کی طرف سے یا نصاب ونظامِ تعلیم کے ذریعے جو نظریات اسے سکھائے جائیں ، وہ اس کے ذہن پر مرتسم ہوجاتے ہیں اور اس کی آئندہ زندگی کے رویوں کا بہت سا انحصار اس امر پر ہوتا ہے کہ اس نے کس نصابِ تعلیم یا کن اساتذہ سے تحصیل علم کیا ہے۔ اسلامی معاشرہ کو خالص اس کی اپنی راہ سے دو رکرنے اور مغربی سوچ کا خوگر بنانے کے لئے اس وقت دو قسم کے طریقہ کار اپنائے جارہے ہیں ۔ جدید استعماری اصطلاح میں یہ دونوں طریقے ’ہارڈ اور سافٹ پاور‘ کھلاتے ہیں ۔ امریکی جریدہ ’فارن پالیسی ‘کے مدیر جوزف نائی کی پیش کردہ اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ مدمقابل کو سختی کے ساتھ کسی نقطہ نظرکو اپنانے پر