کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 219
آپ نے یوں اللہ کا شکر ادا کیا : وَأَنْتَ تُعِيْنُ الْعَبْدَ خَيْرَ إِعَانَةٍ إذَا انْقَطَعَتْ أَسْبَابُه وَوَسَائِلُه وَلَوْ لَمْ تَدَارَكْه بِفَيْضٍ مُسَلْسَلٍ لَمَا كَثُرَتْ فِيْ كُلِّ عِلْمٍ رَسَائِلُه وَلَوْ لَمْ تُعِنْه مِنْ جَنَابِكَ عِصْمَةً فَتَألِيْفُه زُوْرٌ وَحَبْطٌ دَلَائِلُه34 ”اور جب میرے اسباب و وسائل منقطع ہوجائیں تو ہی میری خوب اعانت کرتا ہے۔ اگر تیری مسلسل رحمت میرے شامل حال نہ ہوتی تو ہر علم میں میرے وسائل بکثرت نہ ہوتے۔ اور اگر تو اپنے فضل سے مجھے پھسلنے سے محفوظ نہ رکھتا تو میر ی تالیفات بے کار اور دلائل بے وقعت ہوتے۔“ اہل ِ علم اور اصحاب ِ فکر و نظر نے آپ کی موٴلفات کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ شیر محمد خان نادر رقم طراز ہیں : ”آپ کو تالیف و تصنیف کا ذوق بہت زیادہ تھا۔ آپ نے ہر علم و فن میں متعدد کتابیں یادگار چھوڑی ہیں ۔“35 مولوی برخوردار ملتانی لکھتے ہیں : ”آپ نے ہر فن کے متعلق ایسی عجیب عجیب کتابیں تصنیف کی ہیں جو متقدمین کی تالیفات سے بہرحال فائق ہیں ۔“36 مولانا عبدالحئ کو، پرہاروی کی بہت سی کتابوں سے آگہی ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ پرہاروی نے معقولات ومنقولات میں بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں ۔37 شیخ شمس الدین بہاولپوری،38 مولانا امام بخش مہاروی،39 علامہ محمداقبال40 اور مولانا عبدالتواب ملتانی رحمۃ اللہ علیہ41 وغیرہ 42عالی قدر اصحاب علم آپ کی موٴلفات کی بہت قدر کرتے۔ مگر انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ آپ کی موٴلفات کی حفاظت نہیں ہوسکی۔وہ جابجا منتشر ہیں ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ کی کوئی صلبی اولاد نہ تھی جو اس گراں قدر علمی ورثہ کی حفاظت کرسکتی۔ آپ کی زندگی میں ملتان اور گردونواح پر سکھوں کا تسلط ہوگیاتھا۔ اُنہوں نے مساجد اور خانقاہوں کو مسمار کردیا۔ مسلمانوں کوخوف زدہ رکھا۔ علما اور طلاب ِ علم پر عرصہٴ حیات تنگ ہوگیا۔وہ امن و سکون کی تلاش میں اِدھر اُدھر نکل گئے، مسلمانوں کے تعلیمی و تربیتی ادارے تباہ ہوگئے اور سکھوں نے مسلمانوں کو مزیدپڑھنے پڑھانے کا کوئی موقعہ نہ دیا۔ ان حالات میں ان کتابوں کی حفاظت نہ ہوسکی۔ کوئی کتاب جس کے ہاتھ لگی، وہ ساتھ لے گیا اور وہ کتابیں