کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 218
فَإنِّىْ بِتَصْنِيْفِ الدَّفَاتِرُ مُولَعٌ عَلٰى وَجَلٍ أَنْ تَضِيْعَ وَتَبْطُلُ فَإنْ كَانَ مَاصَنَّفْتُه لَهْوٌعَابِثٌ فَيَا رَبِّ اَشْغِلْنِىْ بِمَا هُوَ أَفْضَلُ وَإِنْ كَانَ فِيْ التَّصْنِيْفِ خَيْرٌوَبَرَكَةٌ فَيَسِّرْه لِيْ كَيْلًا يَعُوْقَنَّ مُشْكِلُ31 ”اے کائنات کے الٰہ! میں تجھ سے سوال کرتے ہوئے استخارہ کرتا ہوں ، اور یہ حقیقت ہے کہ تجہ سے استخارہ کرنے والا اور مانگنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا… مجھے کتابیں تصنیف کرنے کا شوق ہے۔ مجھے یہ اندیشہ بھی ہے کہ کہیں وہ ضائع نہ ہوجائیں … میں جو کتابیں تصنیف کرتا ہوں ، اگریہ بے فائدہ کام ہے تو میرے ربّ مجھے اس سے کسی بہتر کام میں مصروف کردے اور اگر تصنیف کے کام میں خیر اور برکت ہے تو اسے میرے لئے آسان کردے تاکہ کوئی مشکل آڑے نہ آسکے۔“ آپ اپنے ایک اور قصیدہ میں اللہ سے دعا کرتے ہیں : فَضَاعِفْ لَهُ يَوْمَ الْجَزَاءِ ثَوَابَهَا كَمَزْرَعِ حَبٍّ دَامَ تَنْمُوْسَنَابِلُه32 ”یااللہ! تو اپنے بندے کو قیامت کے روز ان کتابوں کا کئی گنا اجر عطا فرمانا جیسے ایک ایک دانہ اُگتا ہے تو اس کی بالیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔“ آں رحمہ اللہ اپنی تالیفات کو ’باقیات صالحات‘ (تادیرباقی رہنے والے اعمالِ صالحہ) شمار کرتے تھے۔ آپ کی تمنا ہوتی تھی کہ آپ کی تالیفات کو قبولِ عام حاصل ہو اور وہ عرصہٴ دراز تک صفحہٴ ہستی پر باقی رہیں ۔ چنانچہ ایک مقام پر اللہ سے یوں دعا کرتے ہیں : وَأَسْأَلُكَ اللّٰهُمَّ يَا خَيْرَ سَامِعٍ بِأَسْمَائِك الْحُسنىٰ الَّتِيْهِيَ أَبْجَلُ قَبُوْلَ تَصَانِيْفِىْ جَمِيْعًا وَرَسْمَهَا عَلٰى صَفْحَاتِ الدَّهْرِ لَا تَزِيْلُ33 ”یا اللہ! اے بہترین سننے اور قبول کرنے والے، میں تیرے جلیل القدر اسما کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں کہ تو میری تمام تصانیف کو قبول فرما اور یہ عرصہ دراز تک صفحہٴ ہستی پر باقی رہیں ۔“ آپ عقلی و نقلی علوم و فنون میں تصنیف کی رغبت رکھتے تھے۔ آپ جب اپنی کتاب النبراس کی تالیف سے فارغ ہوئے، تو اس سے قبل آپ متعدد رسائل، کتابچوں اور طویل کتب کی تکمیل کرچکے تھے۔ تو آپ اپنی کثرتِ تالیفات پر ازحد مسرور ہوئے اور اس نعمت پر