کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 217
گراں قدر اضافہ کیا ہے کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ ہمارا استعجاب اس وقت مزیدبڑھ جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا دورِ تالیف انتہائی مختصر ہے۔ جبکہ آپ کی گراں قدر تصانیف، مختصرات و مطولات اور تعلیقات و شروح کی تعداد ایک صد سے زائد ہے۔ اس قدر عظیم علمی خدمت اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق ہی سے ممکن ہے۔ ایں سعادت بزور ِ بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ آپ کی موٴلفات میں سے ایک تالیف کا نام الخصائل الرضيةہے۔ اس میں آپ نے اپنے شیخ حافظ محمد جمال اللہ ملتانی کے احوال بیان کئے ہیں جن کا انتقال 1226ہ کو ہوا۔ ان کے انتقال سے تین ہی دن بعد آپ نے ان کے احوال سے متعلق یہ کتاب لکھ دی۔ ہماری معلومات کے مطابق یہ آپ کی اوّلین تصنیف ہے۔ اس وقت آپ کی عمر پندرہ برس تھی۔ اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا دور ِ تصنیف و تالیف 1226ھ سے یا شاید اس سے کچھ ہی پہلے شروع ہوتا ہے۔ اور یہ سلسلہ 1239ھ میں آپ کے انتقال پُرملال تک چلتا ہے۔ گویا آپ کی مدتِ تالیف چودہ سال سے متجاوز نہیں ۔ شیخ پرہاروی کوتصنیف و تالیف کا بہت زیادہ شوق تھا۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتے تھے کہ وہ اس سلسلہ میں آپ کی مدد فرمائے اور اس راہ میں آسانیاں مہیا کرے اور خطا و زلل سے محفوظ رکھے۔ آپ یہ تمنا بھی کیا کرتے تھے کہ آپ کی موٴلفات کی تعداد بہت ہو اور اللہ تعالیٰ ان میں برکت فرمائے۔ ہمارے اس موقف کی تائید آپ کی تالیف الناہية عن ذم معاوية میں آپ کے اس کلام سے ہوتی ہے، آپ لکھتے ہیں : اُدْعُ بِالْفَلاحِ لِعَبْدِ الْعَزِيْزِ بْنِ أَحْمَد … بَارَكَ اللهُ فِىْ مُصَنَّفَاتِه30 ”آپ اللہ تعالیٰ سے عبدالعزیز بن احمد کی کامیابی کی دعا کریں ۔ اللہ اس کی مصنفات میں برکت فرمائے۔“ آپ تصنیف و تالیف میں مشغولیت کو عبادت کا درجہ دیتے اور اسے اُخروی ثواب کا ذریعہ قرار دیتے تھے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کرتے ہیں : اِلٰهَ الْبَرَايَا أَسْتَخِيْرُكَ سَائِلًا وَمَاخَابَ عَبْدٌ يَسْتَخِيْرُ وَيَسْأَلُ