کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 215
انداز پر ایک سو بیس اشعار ہیں ۔ اس میں آپ نے اسلامی عقائد اور ان سے متعلقہ مسائل پر اجمالی بحث کی ہے۔
النبراس کے اختتام پر آپ نے جو قصیدہ رقم کیا ہے، وہ سہل ممتنع کی نہایت عمدہ مثال ہے۔ آپ نے ان میں قرآنی آیات کے اقتباسات لفظاً و معنی ً ذکر کئے ہیں ۔ اس قصیدہ کے بعض ابیات درج ذیل ہیں :
تَبَارَكْتَ يَا مَنْ لَا يَخِيْبَنَّ سَائِلُه وَعَمَّ جَمِيْعُ الْكَائِنَاتِ نَوَائِلُه
لَكَ الْحَمْدُ مِنْ عَبْدِ الْعَزِيْزِ بْنِ أَحْمَد بِمَا رَقَمْتَ هَذَا الْكِتَابَ أَنَامِلُه
وَإنِّىْ أَخَافُ السَّهْوَ فِيْهِ لِعُجْلَتِيْ وَأَجْدَرُ فِعْلٍ بِالْمَزَالِقِ عَاجِلُه
بُضَاعَتِي الْمُزْجَاةُ خُذْهَا تَكَرُّمًا وَأَوفِ لَنَا الْكَيْلَ الْوَسِيْعَ مَكَائِلُه
لَقَدْ مَسَّنِىْ ضُرٌّ وَجِئْتُكَ سَائِلًا وَأَنْتَ الَّذِيْ يُغْنِيْ الْفَقِيْرَ نَوَافِلُه
وَأَنْتَ تُعِيْنُ الْعَبْدَ خَيْرَ إِعَانَةٍ إِذَا انْقَطَعَتْ أَسْبَابُهُ وَوَسَائِلُه
وَأَنْتَ حَفِيْظُ الْكُلِّ مِنْ شَرِّحَاسِدٍ وَخَصْمٍ لَجُوْجٍ يَطْمِسُ الْحَقَّ بَاطِلُه
وَصَلِّ عَلٰى خَيْرِ الْبَرَايَا مُحَمَّدٍ كَرِيْمِ السَّجَايَا لَا تُعَدُّ فَضَائِلُه
وَأَصْحَابِهِ الأَخْيَارِ طُرًّا وَآلِه وَسَلِّمْ بِتَسْلِيْمٍ يَجُوْذُ هَوَاطِلُه28
اسی طرح آپ کا ایک عربی قصيدہ میمیہ بھی ہے جو آپ کی جدتِ فکر، متانت ِرائے اور اہل وطن علما سے از حد اخلاص کا مظہر ہے۔ اس میں آپ نے علماءِ زمانہ کی اس روش پرتاسف کا اظہار کیا ہے کہ وہ علم حدیث کو پس پشت ڈال کر غیر مفید عقلی علوم کے پیچھے پڑے ہیں ۔ آپ اس قصیدہ میں اپنے دور کے علما کو اس بے کار شغل پر ملامت کرتے ہوئے حدیث کی طرف متوجہ ہونے کی ترغیب دلاتے ہیں ۔آپ فرماتے ہیں :
أَ يَا عُلَمَاءَ الْهِنْدِ طَالَ بَقَائُكُمْ وَزَالَ بِفَضْلِ اللهِ عَنْكُمْ بَلَاوٴُكُمْ
رَجَوْتُمْ بِعِلْمِ الْعَقْلِ فَوْزَسَعَادَةٍ وَأَخْشٰى عَلَيْكُمْ أنْ يَخِيْبَ رَجَاءُ كُمْ
فَلاَ فِيْ تَصَانِيْفِ الأَثِيْرِ هِدَايَةٌ وَلَا فِىْ إِشَارَاتِ ابْنِ سِيْنَا شِفَائُكُمْ