کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 214
شعری ذوق پرہاروی کے علمی آثار کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شعرگوئی کے بارے میں وہ انتہائی زرخیز ذہن اور عمدہ ذوق کے مالک تھے۔ قوافی اور اوزانِ شعر سے آپ بخوبی واقف تھے۔ معجون الجواہر،الياقوت اور نعم الوجيز وغیرہ آپ کی تالیفات سے اس موضوع میں آپ کی استعداد کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپ اپنی کتابوں اور تالیفات کی ابتدا میں بطورِ مقدمہ اور کتابوں کا اختتام اپنے منظوم کلام سے کرتے ہیں ۔ چنانچہ النبراس کا مقدمہ 33/ اشعاراور خاتمہ 19/ ابیات پر مشتمل ہے۔ آپ نے اپنی تالیفات الياقوت،حب الأصحاب اور النبراس کا آغاز منظوم کلام سے کیا ہے۔ اگر آپ کی تمام موٴلفات ہمارے پیش نظر ہوتیں تو ہم یقینی طور پر آپ کے منظوم مقدمات ِ کتب کا ذکر کرسکتے۔ یہ آپ کا ایک ایسا نادر وصف ہے جو برصغیر کے اہل علم کی موٴلفات میں انتہائی کم یاب ہے۔ تشہد میں اشارہٴ سبابہ کے اثبات کے متعلق آپ کے ایک رسالہ سے آپ کی شعرگوئی کی قدرت واستعداد کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔ آپ کی موٴلفات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و نعت کے متعلق اشعار کہتے اور ثناخوانِ رسالت حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار پر تضمین بھی کہتے۔ مثلاً وَمَا أَحْسَنَ الْبَيْتُ الَّذِيْ قَدْ أَتٰى بِه الْمُوٴَيِّدُ بِرُوحِ الْقُدْسِ فِيْ الشِّعْرِ لَه هِمَمٌ لَا مُنْتَهٰى لِكِبَارِهَا وَهِمَّتُه الصُّغْرىٰ أَجَلُّ مِنَ الدَّهْرِ27 ”وہ ابیات کیا خوب ہیں جواشعار میں روح القدس (جبریل علیہ السلام) کی تائید پانے والے (حسان رضی اللہ عنہ ) نے کہے ہیں ۔ اس کی بڑی بڑی مساعی و خدمات کے کیا کہنے۔ اس کی تو معمولی سی خدمت بھی زمانے بھر سے زیادہ وقیع ہے۔“ ’ایمان کامل‘ کے نا م سے فارسی زبان میں آپ کا ایک کتابچہ ہے۔ اس میں مثنوی کے