کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 213
عمر تیس برس کے لگ بھگ تھی۔25 شیخ پرہاروی عقیدہ اہل سنت کے حامل اور فقہ حنفی کے پیرو تھے۔ آپ نے علم عقائد کے بارے میں مفید کتابیں تصنیف کرکے دلائل و براہین سے عقائد ِاہل سنت کا بھرپور دفاع اور مضبوط علمی اساس پر شیعہ عقائد کا ردّ بھی کیا۔ آپ کی کتب و مصنفات و موٴلفات میں اہل بیت رضی اللہ عنہم کی فضیلت اور محبت کا بیان ملتا ہے۔ آپ کو اہل بیت رضی اللہ عنہم سے غایت درجہ محبت تھی۔ اس دور میں علمی حلقات میں جو علوم متداول اور زیردرس تھے۔ آپ ان تمام علوم و فنون کے علاوہ دیگر بہت سے ان فنون کے بھی ماہر اور اجل عالم تھے جو بڑے بڑے علمی مراکز میں پڑھائے جاتے تھے؛ آپ کو ان تمام علوم کے حصول و معرفت کااز حد شوق تھا۔ آپ کی اس شدید علمی رغبت نے آپ کو علوم کی طرف مائل کیا۔اور اسی شوق و رغبت کی وجہ سے کتابوں کاپڑھنا اور مطالعہ اور مہارت سب کچھ آپ کے لئے سہل تر ہوتا گیا اور آپ کا علمی شہرہ پھیلتا چلا گیا۔مولوی امام بخش مہاروی لکھتے ہیں کہ ”آپ کے علمی مرتبہ کا شہرہ ہر زماں ومکاں میں ، نزدیک اور دور ہر طرف پھیل گیا۔“26 ڈیرہ غازی خان کے نواح سے کچھ اہل علم نے آپ کا امتحان لینے کی غرض سے کچھ سوالات آپ کی خدمت میں روانہ کئے۔ پہلے تو آپ نے ان سوالات کا جواب دینے سے ترددّ کیا۔ تاکہ ان کی وجہ سے کسی قسم کا اختلاف یا عداوت پیدا نہ ہوجائے مگر بعد میں ان سوالات کے جوابات اس اندیشہ سے لکھ بھیجے کہ کہیں اسے ان کی کم علمی پر محمول نہ کرلیا جائے۔ وہ سوالات ایسے تھے کہ ان کا جواب بہت زیادہ علم کی روشنی میں ہی دیاجاسکتا تھا۔ آپ نے ان سوالات کے جوابات کے ساتھ ساتھ مختلف علوم کے کچھ سوالات لکھ کر شیخ احمد ڈیروی کو بھجوا دیے۔ اب ہمیں کچھ علم نہیں کہ شیخ احمد نے ان سوالات کے جوابات دیے تھے یا وہ ان کے جوابات دینے سے عاجز رہے تھے۔ تاہم ان سوالات سے یہ ضرور اندازہ ہوتا ہے کہ سوال کرنے والا خود کس قدر صاحب ِعلم تھا اور وہ ان سوالات سے متعلقہ علوم کا کس قدر ماہر تھا۔