کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 212
ودانش کا فخریہ اندا زمیں ذکر کیا۔ پرہاروی لکھتے ہیں کہ امیر میری وجہ سے دوسرے اہل علم پر فخر کا اظہار کیا کرتا تھا۔20
پرہاروی کے بادشاہ سے تعلقات، علوم میں بلند علمی مرتبہ، تصنیف و تالیف میں مشغولیت، بحث و تحقیق کا شوق اور حاکم کا دوسرے اہل علم کے سامنے ان کی فضیلت کا اعتراف اور دیگر اہل علم کا آپ کی شخصیت کا مقابلہ نہ کرسکنا، ان تمام اُمور نے دوسرے اہل علم کے دلوں میں آپ کے خلاف حسد کی آگ بھڑکائی او روہ آپ کے مرتبہ و مقبولیت میں کمی کرنے اور لوگوں کو آپ سے نفرت دلانے کی کوششیں کرنے لگے۔ اور ان کی پوری زندگی میں انہیں زچ کرنے اور ضرر پہنچانے کی مساعی کرتے رہے۔ اور انہیں زندگی بھر اپنی بدسلوکیوں کا نشانہ بناتے رہے۔ اس بارے میں اُنہوں نے اپنی ایک کتاب النبراس کے اختتام پر ایک نظم لکھی ہے ۔ اس کا ایک شعر یوں ہے :
وَأَنْتَ حَفِيْظُ الْكُلِّ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ
وَخَصْمٍ لَجُوْجٍ يَطْمِسُ الْحَقَّ بَاطِلَه21
”اور اے اللہ! حاسدین کے حسد کے شر سے اور جو مخالف اپنے باطل سے حق کو مٹانا چاہتا ہے، ان کے شر سے توہی بچانے والا ہے“
آپ اپنی کتابوں اور تحاریر میں لوگوں کے حسد اور علمی طور پر آپ کی ہمسری نہ کرسکنے والوں کے تعصب پر ردّعمل کے طور پر لکھتے ہیں :
”علم اور صحیح اہل علم کے اُٹھ جانے کا شکوہ اللہ ہی سے ہے۔“22
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :
”معاصرین او رکم فہم متعصب اہل علم کے رویہ پر اللہ ہی سے فریاد ہے۔“23
اس قسم کے پریشان کن احوال کے باوجود پرہاروی علوم وفنون کے مطالعہ اور تدریسی اور تصنیفی اُمور میں مشغول رہے تاآنکھ آپ عنفوانِ شباب ہی میں 1239ھ کواس دارِفنا سے دارِبقا کو سدھار گئے۔24
مولانا عبدالتواب ملتانی رحمۃ اللہ علیہ آپ کی عمر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وفات کے وقت آپ کی