کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 211
اس نے یہی کہا ہے۔15 اُستاد کا اپنے شاگرد پر اعتماد حافظ محمد جمال اللہ نے آپ کی دیانت و امانت اور علمی مرتبہ کے پیش نظر اپنے خطوط لکھنے کے لئے آپ کو مقرر کررکھا تھا۔ چنانچہ پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں : آپ کے خطوط میں ہی لکھا کرتا تھا۔ آپ مجھے حکم دیتے کہ صاف صاف لکھوں اور تحریر گنجلک نہ ہو۔ 16آپ نے مروّجہ علوم وفنون اور عقلی و نقلی علومِ متداولہ کی تکمیل کی۔ اس وقت کا نظامِ تعلیم ’درس نظامی‘ کہلاتا تھا جسے ملا نظام الدین نے مرتب کیا تھا۔ اس درس کا نصاب گیارہ علوم و فنون اور تینتالیس43 کتب کی تدریس پر مشتمل تھا۔ 17معقولات کی اکثر کتب مکمل اور باقی کچھ کتب جزوی طور پر پڑھائی جاتی تھیں ۔18 درسِ نظامی کے مرتب ملانظام الدین نے کتب ِتصوف کو نصاب سے خارج کردیا تھا19 پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ نے درسِ نظامی کے مطابق صرف متداولہ علوم کی تحصیل پر ہی اکتفا نہ کیا جس کانتیجہ یہ نکلا کہ اس دور کے منہج تعلیم میں جو کوتاہیاں تھیں ، وہ دور ہوگئیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ آپ نے تیرہ13 تا پندرہ 15 سال کی عمر میں مروّجہ علوم کی تحصیل کی تکمیل کرلی تھی۔ شاہی دربار سے آپ کا تعلق اور لوگوں کا حسد پرہاروی نے علومِ درسیہ کی تکمیل کے بعد مختلف علوم و فنون کی کتب کا خوب مطالعہ کیا اور ہر فن کے بارے میں کتابیں تصنیف کیں ۔ آپ کی ان علمی خدمات اور بلند علمی مرتبہ کی بدولت علمی حلقوں میں آپ کوبہت زیادہ پذیرائی ملی۔ پھر حاکم ملتان کے صاحبزادے امیر شاہ نواز خان سے بھی آپ کا رابطہ ہوگیا اور اس کے ساتھ گہرے مراسم قائم ہوگئے۔ امیر شاہ نواز خان خود بھی صاحب ِعلم تھے اور اہل علم سے محبت کرتے تھے۔ اُنہوں نے پرہاروی کو اپنے ہاں بلوایا اور مختلف سوالات کئے۔ پرہاروی نے اس کے ہر سوال کا جواب دیا۔ شاہی محل میں ان کے مابین متعدد موضوعات پر طویل گفتگو ہوئی۔ امیرشاہ نواز خان نے محل میں موجود اہل علم کے سامنے آپ کی وسعت ِمعلومات اور فہم