کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 210
مدرسہ میں اور غیر نصابی علوم مدرسہ کے مقررہ اوقاتِ تعلیم کے بعد فراغت اور چھٹی کے اوقات میں مطالعہ کرتے اور آپ برابر کسی ماہر فن اُستاذ کی تلاش میں رہتے جو فہم مسائل میں آپ کی معاونت کرسکے۔ اور اگر کوئی مناسب رہنما نہ ملتا تو کسی کی معاونت کے بغیر خود ہی اس فن کا مطالعہ شروع کردیتے۔ چنانچہ اس بارے میں آپ نے خسوف و کسوف سے متعلقہ اپنی کتاب الإلہام میں ذکر کیا ہے کہ میں بچپن ہی سے اس علم کا شائق تھا مگر مجھے اس کے متعلق کوئی ماہر معلم نہ مل سکا۔13 شیخ پرہاروی دن رات اپنے استاذ حافظ محمد جمال اللہ کی معیت میں رہتے۔ حد یہ کہ آپ صرف حضر ہی میں نہیں بلکہ سفر میں بھی اپنے لائق احترام استاذ کی مرافقت اختیار کرتے تاکہ ان مواقع پر بھی ان سے استفادھ کرسکیں ۔
استاذِ محترم آپ کو تصوف کے اسرار کی بھی تعلیم فرماتے اور اس کے رُموز سے آپ کو مطلع کرتے۔ پرہاروی اس کی صراحت یوں کرتے ہیں کہ میں شیخ کے ہمراہ کشتی پرسوار ہواتو اُنہوں نے فرمایا: عبدالعزیز! اللہ تعالیٰ کے وجود کی نشانیوں میں سے سمندری امواج بھی ہیں ۔14
پرہاروی علمی مسائل کے حل اور ان کے فہم کے لئے اپنے شیخ کی طرف مراجعت کرتے، وہ بھی ان کی خوب حوصلہ افزائی کرتے تاکہ علمی مسائل کے فہم اور تعلیمی مراحل کو عبور کرنا ان کے لئے آسان ہو۔
بسااوقات ایسا بھی ہوتا کہ شیخ اپنے شاگرد کو آزمانے کے لئے اور اس کا امتحان لینے کے لئے از خود سوال کردیتے تاکہ شاگرد کی معلومات اور استعداد کا اندازہ ہوسکے اور وہ اس مسئلہ کو شاگرد کے ذہن میں خوب راسخ کرسکیں ۔شیخ پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ اپنی بعض تحاریر میں رقم طراز ہیں :
ایک دن میں شیخ کی معیت میں کشتی پر سوار تھا کہ دورانِ سفر ملاح نے پانی کی گہرائی کا اندازہ لگانے کے لئے ایک لمبی لکڑی پانی میں ڈالی۔ مگر وہ پانی کی گہرائی کو نہ جانچ سکا تو اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا:اللہ یہ سن کر شیخ نے مجھ سے فرمایا: عبدالعزیز! آیا تم سمجھے کہ اس نے کیا کیا ؟ میں نے عرض کیا: اس کی بات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حقیقت بھی ایک گہرا سمندر ہے۔ اس کی گہرائی کا بھی اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سن کر شیخ نے کہا، بالکل۔