کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 209
گرد منڈلاتا ہو، جسے دورانِ مطالعہ کسی بھی پیش آمدہ مشکل پراُستاذ کی طرف مراجعت اور ان سے سوال و جواب کی سہولت میسر ہو تو بھلا اس پر تمام علوم کے دروازے کیوں وا نہ ہوں ؟ شیخ پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مہربان و مشفق استاذ کے متعلق لکھتے ہیں کہ ”ہمیں کسی بھی فن کے متعلق کوئی مشکل پیش آتی تو ہم ان کی طرف مراجعت کرتے، وہ اس بارے میں ممکن حد تک اچھی سے اچھی اور عمدہ سے عمدہ گفتگو فرماتے۔“ 11 حافظ محمد جمال اللہ محض ایک متبحر عالم اور تدریس و تعلیم کا اچھا نمونہ ہی نہ تھے بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ زیرتعلیم طلبہ کے تزکیہٴ نفوس اور اصلاحِ اخلاق پر بھی توجہ فرماتے اور اس کے لئے بہترین اور قابل قبول انداز اختیار فرماتے۔ ایک دفعہ کسی غریب آدمی نے حافظ محمد جمال اللہ کو کھانے پربلایا۔ آپ وہاں تشریف لے گئے۔ پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہمراھ تھے۔ میزبان نے گائے کا گوشت تیار کیا تھا، جو کچھ عمدہ نہ تھا۔ او رپکا ہوا بھی ٹھیک نہ تھا بلکہ اس میں کچھ ناگوار بُو بھی تھی۔ شاگرد پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ کے چہرہ پر ناگواری ظاہر ہوئی۔ اُستاذ سمجھ گئے کہ اسے گوشت کھانے میں رغبت نہیں ۔ ملاحظہ کیجئے کہ ایسے موقعہ پراستاذ نے کس طرح طالب ِعلم کی تربیت کی، شاگرد رقم طراز ہے کہ جب شیخ محترم نے میرے چہرے پر ناگواری محسوس کی تو اُنہوں نے کھانے کی خوب مدح فرمائی، اور خوب لطف ہونے کے انداز میں خوشی خوشی کھانا کھایا۔ میں نے بھی مجبوراً ساتھ دیا اور زہر مار کیا۔ دعوت سے فارغ ہوکر ہاتھ دھوئے، رومال سے ہاتھ صاف کئے۔ اور ہاتھ اُٹھاکر یوں دعا کی: اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِصَاحِبِ الطَّعَامِ وَلآكِلِيْهِ وَلِمَنْ سَعٰى فِيْه اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا بِفَضْلِكَ وَكَرَمِكَ يَا أَكْرَمَ الأكْرَمِيْنَ12”یا اللھ! میزبان کی، کھانے والوں کی اور اس کی تیاری میں کوشش کرنے والے سب لوگوں کی مغفرت فرما۔ یا اللہ اپنے فضل و کرم سے اس کھانے میں ہمارے لئے برکت فرما۔ اے سب سے بڑھ کر عزت والے رب!“ آپ کی موٴلفات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ علوم و معارف کی محبت آپ کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اور آپ ملتان میں حافظ محمد جمال اللہ کے ہاں دورانِ تعلیم غیرنصابی مگر نافع علوم و فنون کی کتب کا از خود مطالعہ کیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ آپ نصابی اسباق اوقاتِ