کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 208
استاد نے اُن کے لئے دعا کی تو قدرت ِ الٰہی اور اس کے فضل سے تمام عقلی ونقلی علوم کے دروازے آپ پر کھل گئے۔ آپ کسی بھی علم و فن کی کتاب کامطالعہ کرتے، آپ کے لئے وہ انتہائی آسان ہوجاتی۔9 حافظ محمد جمال ایک عظیم المرتبت انسان تھے۔ ان میں ایک کامل استاذ کی تمام صفات موجود تھیں ۔ وہ بچوں سے خوب شفقت فرماتے اور نہایت نرمی وتوجہ سے سبق سمجھاتے۔ سبق کی خوب تشریح کرتے۔ خوب شرح اور توضیح کرکے تمام متعلقہ مباحث سمیت پورا سبق طلبا کے ذہن میں راسخ کرتے۔ وہ طلبہ کے سامنے سبق یا لیکچر ہی پیش نہ فرماتے بلکہ ان کے اذہان میں علوم و معارف کی رغبت پیدا کرنے کی پوری کوشش کرتے۔ وہ کیا مبارک دن تھاکہ جس روز شیخ پرہاروی طلب ِعلم اور تحصیل معارف میں خوب خوب آگے بڑھنے لگے۔ یہاں تک کہ مسائل کا فہم آپ کے لئے از حد سہل ہوگیا۔ وہ برابر جدوجہد کرتے رہے یہاں تک کہ تمام علوم کی مشکلات ان پر خود بخود منکشف ہوتی چلی گئیں اور یوں محسوس ہونے لگاکہ تمام علوم اور ان کے حقائق آپ کو معلوم ہیں ۔ حافظ محمد جمال اللہ اس قدر عمدہ انداز سے تعلیم دیتے اور مثالوں سے اسباق کو یوں واضح کرتے کہ جو بات ذہین طالب علموں کو دوسرے اہل علم سے سمجھ نہ آتی تو آپ ایسے گنجلک مسائل یوں آسان کرکے پڑھاتے کہ کند ذہن طلبہ بھی اسے بخوبی سمجھ جاتے۔10 یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حافظ محمد جمال اللہ ایک مہربان اور مشفق اُستاذ ہونے کے ساتھ ساتھ دقائقِ تدریس اور رموزِ تعلیم سے بھی بخوبی واقف تھے۔ پڑھائی کے دوران طلبا کو جو مشکلات عارض آتیں اور انہیں علمی میدان میں آگے بڑھنے سے روکتیں ، وہ ان کوملحوظ رکھ کر ان کااِزالہ فرماتے۔ ان کی طرف سے طلبہ کو عام اجازت تھی کہ وہ اپنی مشکلات کے حل کے لئے جس وقت بھی چاہیں ، ان کے ہاں آسکتے ہیں ۔ جب اُستاذ اس قدر اعلیٰ اخلاق کا حامل ہو، وہ علم کے مقام اور آداب ِ تدریس سے بھی کماحقہ واقف ہو، اور پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ جیسا علم کاشیدائی ہروقت اس کے