کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 207
ملتان سے شمال مغربی جانب تقریباً آٹھ کوس کے فاصلہ پر ہے۔4 تحصیل علم آپ نے حصولِ علم کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور اپنے والد مکرم سے قرآنِ کریم حفظ کیا۔5 بعد ازاں مزید علوم کی تحصیل کے لئے رخت ِ سفر باندھ کر ملتان روانہ ہوئے اور وہاں حافظ محمد جمال ملتانی رحمۃ اللہ علیہ 6کے مدرسہ میں ڈیرے ڈال دیے۔ عجیب بات ہے کہ موٴرخین اور آپ کے تذکرہ نویسوں میں سے کسی نے بھی حافظ محمد جمال رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ آپ کے کسی دوسرے اُستاذ کا ذکرتک نہیں کیا۔آیا پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ نے صرف انہی ایک استاذ سے استفادہ کیا اور دوسرے کسی صاحب ِعلم سے کچھ نہ پڑھا؟ اس کی صراحت کتب، تراجم اور پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں میں کہیں نہیں ملتی۔ البتہ یہ ذکر ملتا ہے کہ طلب ِعلمی کے آغاز میں وہ کوئی زیادہ ہوشیار اور ذہین نہ تھے بلکہ آپ غیر فطین یعنی غبی (کند ذہن) تھے۔ مولوی امام بخش مہاروی لکھتے ہیں کہ مولوی عبدالعزیز پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ انتہائی کند ذہن طالب علم تھے۔ آپ کوئی چیز یاد کرنا چاہتے تو بالکل یاد نہ کرسکتے تھے۔7 اس بات کا علامہ پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ نے خود بھی اعتراف کیا ہے۔ ایک جگہ رقم فرماتے ہیں کہ ”یہ مسکین ( یعنی میں ) بچپن میں قلت ِفہم میں معروف تھا۔“8 تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ علامہ پرہاروی پڑھائی کے شوقین اور علم کے دلدادہ تھے۔ اسباق کو یاد کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے۔ اس کے باوجود یاد کرنے میں ناکام رہتے تو رونے لگ جاتے۔ مولوی امام بخش مہاروی رقم طراز ہیں : ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے انتہائی مغموم بیٹھے تھے، کتاب آپ کے سامنے تھی اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے کہ حافظ محمد جمال نے آپ کو اس حالت میں دیکھ لیا۔ انہوں نے فرمایا، عبدالعزیز! کیا بات ہے، تم پریشان کیوں ہو؟ آپ نے روتے ہوئے عرض کیا: حضرت! مجھے سبق یاد نہیں ہورہا۔ تو حافظ محمد جمال نے فرمایا: آوٴ میرے پاس آکر سبق یاد کرو۔ جب آپ نے اُستاد کے سامنے بیٹھ کر سبق پڑھا اور