کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 205
تذکرة المشاہیر مقالہ نگار :ڈاکٹر محمد شفقت اللہ
ترجمہ: پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی
شیخ علامہ عبدالعزیز پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ
(1209ھ/ 1794ء تا 1239 ھ/ 1823ء )
تازہ خواہی داشتن گرد اغ ہائے سینہ را گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را
زیر نظر تذکرہ جنوبی پنجاب کے ایک نامور صاحب ِعلم مصنف کا ہے۔ عربی زبان دانی، شاعری اور تصانیف کی کثرت موصوف کا ایسا امتیازہے جس سے ان کی شخصیت اپنے اماثل واقران میں نمایاں ہوجاتی ہے۔علاوہ ازیں آپ کے علم اور وسعت ِمعلومات سے ہرکوئی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علامہ موصوف تصوف کا بھی گہرا رجحان رکھتے تھے جیسا کہ یہ رجحانات زیر نظر مضمون سے بھی نمایاں ہیں ، مزید برآں حنفی مسلک ہونے کے ساتھ ساتھ آپ نے تقلید کی مذمت میں تصانیف بھی لکھیں اور حدیث ِنبوی کی خدمت کو علما کا شعار بنانے کے لئے بھی جدوجہد کرتے رہے۔ آپ کی شخصیت اور تصانیف سے اہل علم کو واقفیت نہیں ، نہ ہی اس بارے میں کسی جگہ معلومات یکجا ملتی ہیں ۔ (ح۔ م)
شیخ علامہ عبدالعزیز پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی بیشتر قارئین کے لئے یقیناً نیا ہوگا۔ راقم الحروف جن دنوں دارالحدیث محمدیہ، جلال پور پیروالہ میں سلطانِ محدثین حضرة مولانا سلطان محمود محدث رحمۃ اللہ علیہ (م 1995ء) کے ہاں زیرتعلیم تھا تو شیخ محترم اکثر و بیشتر دورانِ درس انتہائی عقیدت و احترام سے شیخ پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے اور اپنے بعض خاص تلامذہ کو شیخ پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب نعم الوجيزبھی پڑھاتے۔ شیخ پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ نے مختصر مگر از حد مصروف زندگی گزاری۔ دور ِ حاضر کے بہت سے اہل علم ان کے نام اور کام سے واقف نہیں ۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا تذکرہ مفصل طور پر یکجا مرتب نہیں ہوسکا۔ بہاوٴ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہٴ عربی کے نامور اُستاذ ڈاکٹر محمد شفقت اللہ کو اللہ کریم جزاے خیر عطا فرمائے کہ اُنہوں نے خاصی محنت کرکے شیخ پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی اور علمی کارناموں پر روشنی ڈالی ہے۔ آں موصوف عربی زبان کے ماہر اور عظیم سکالر ہیں ۔ انہوں نے یہ تعارفی مضمون عربی زبان میں