کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 198
﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا إلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ﴾(آل عمران:185) ”کامیاب دراصل وہ شخص ہے جو آتش دوزخ سے بچ گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا۔رہی یہ دنیا تو یہ محض دھوکہ کا سامان ہے۔“ لیکن نجات اور کامیابی کا یہ راستہ کٹھن اور خاردار ہے۔ ہمیشہ کی کامرانی اور دائمی لذتوں کے حصول کے لئے مصائب اور کلفتوں کی دشوار گزار گھاٹیوں کو پاٹنا ہوگا اور اس کے بعد نعمتوں اور لذتوں کے ایسے سامان ہوں گے کہ کسی آنکھ نے ان کا مشاہدہ نہیں کیا ہوگا،کسی کان نے ان کے متعلق کبھی سنا نہیں ہوگا اور کسی دل میں اس کا تصور بھی پیدا نہیں ہوا ہوگا۔ رہا جہنم کا راستہ تووہ بظاہر بڑا پُرفریب، خوبصورت اس کے چھار سو پھولوں کی باڑ ،بڑا سہل لیکن دراصل وہ شقاوت و بدبختی کی ایسی وادی کی طرف لے جانے والا ہے جس کی ہولناکی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب تجھے اختیار ہے اے انسان کہ تو جنت کے سیدھے مگر قدم قدم پر دشوار گزار راستہ پر چل کر اپنے لئے ہمیشہ کی خوش بختی اور سرخروئی کا سامان کرلے یاپھر جہنم کے پر پیچ،چھار سو عارضی لذتوں میں گھرے ہوئے راستہ پر چل کر چند دن کی عارضی لذت کوشی ،لیکن انجام کار ہمیشہ کی ذلت و رسوائی اور دلفگار عذاب کے لئے تیار ہو جا ئے ۔فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (حُفَّتِ الجنة بالمكاره وحفت النار بالشهوات)(بخاری:6487،مسلم:7061) ایک طرف آگ کی طرف پکارنے والا کھڑا ہے ، جس کے پاس دنیا کی لذتوں کے مختلف سامان ہیں جو پکار رہا ہے۔ لوگو! آوٴ یہ راستہ بہت آسان ہے ،حرام و حلال کی کوئی تمیز نہیں ۔ یہ سود، زناکاری، برہنہ فلمیں ، گندے ڈائجسٹ، الغرض شہوت رانی کے مختلف سامان ہیں جس طرح دل چاہے اپنے پیٹ اور شہوت کی آگ بجھالو۔ چھوڑ موت، قبر اور آخرت کی فکر۔اور یہ پکارنے والا کون؟شیطانِ لعین،جس کو قرآن انسانیت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتا ہے۔﴿إنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْه عَدُوًّا﴾”یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے، اپنے جسم کی تمام توانائیوں کو مجتمع کرکے اپنے دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار ہوجاوٴ “اور یہ دشمن ہر وقت گھات لگائے بیٹھا ہے۔اس نے کہا تھا:﴿ثُمَّ لَاٰتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيْهِمْ وَمِنْ