کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 197
اور ان پر جہنم کا خوف اس قدر طاری ہوا کہ اس خوف نے ان کی جان لے لی ۔ جہنم سے ڈرنے کے بارے شریعت کا تقاضا کیا ہے؟ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”جہنم سے صرف اسی قدر ڈرنا واجب ہے کہ اس سے انسان کے اندر فرائض کو بجالانے اور محارم سے اجتناب کا داعیہ پیدا ہوجائے۔ اگر جہنم کا خوف کچھ اور بڑھ جائے اور انسان اپنے انگ انگ پر اللہ اور اس کی اطاعت کو نافذ کرلے، مستحبات پر عمل کرے ،مکروہات سے بچے اور رخصت کی بجائے عزیمت پر عمل کرے توجہنم کا یہ خوف اور بھی لائق تحسین ہے۔ لیکن اگر یہ خوف مزید بڑھ کرزندگی کا روگ بن جائے اور آخر انسان کو موت کے منہ تک پہنچا دے کہ انسان اللہ کے فرائض کی ادائیگی سے بھی عاجز آجائے تو ایسا خوف قابل تحسین نہیں ہوسکتا۔“ یہ حقیقت ہے کہ اللہ کا خوف، دلوں میں اس کی ہیبت اور عظمت پیدا کرنے کے لئے شریعت کامقصودِ اول ہے ، تاکہ انسان مستحبات کو انجام دے کر اور مکروہات سے بچ کر اللہ کا تقرب حاصل کرلے، لیکن اگر انسان اس خوف کوبڑھا کر زندگی کا روگ بنا لے کہ یہ خوف فرائض و مستحبات کی انجام دہی اور حرمات و مکروہات سے اجتناب کے سامنے رکاوٹ بن جائے تو اصل مقصود ہی فوت ہوجائے گا۔ البتہ اگر جہنم کا خوف انسان پر غالب آجاتا ہے تو اس صورت میں انسان معذور ہے ۔ اسلاف کا حال کچھ ایسا ہی تھا کہ جہنم کا خوف ان کے دلوں پر غالب آگیا تھا۔ وادیٴ جہنم سے بچنے کا راستہ ہولناک جہنم، تھوہر اور خاردار کھانا، جہنم کا کھولتا ہوا پانی اور اہل جہنم کی پیپ، بیڑیوں اور طوقوں کی جھنکار کا تذکرہ آپ نے پڑھ لیا کہ وہ آگ کس طرح چہروں کو سیاہ اور کھالوں کو اُدھیڑ دے گی۔ انتڑیوں کو باہر نکال دے گی اور دلوں کے اندر تک پہنچ جائے گی۔ اس کو پڑھ کر ہر وہ شخص جو روزِ آخرت پر یقین رکھتاہے ،وہ اپنے کو اور اپنے گردوپیش کے لوگوں کو جہنم کی اس ہیبت ناک وادی سے بچانے کی ضرور فکر کرے گا۔ اس کے دن اور رات اسی غم میں گزریں گے، کیونکہ یہی درحقیقت اصل کامیابی ہے۔