کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 196
بعض اسلاف کے متعلق آتا ہے کہ وھ دنیا کی آگ کو دیکھتے تو اضطراب و کرب کی کیفیت سے ان کی حالت غیرہوجاتی۔چنانچہ عطاء خراسانی سے مروی ہے کہ اویس قرنی کبھی لوہاروں کی دکان سے گزرتے تو کھڑے ہوکر دیکھتے کہ وہ بھٹی کس طرح پھونکتے ہیں اور جب انہیں آگ کے شعلوں کی آواز سنائی دیتی تو چیخ مارتے اور بے ہوش ہوکر گر جاتے۔ ٭ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے آگ جلائی جاتی تو اپنے ہاتھ آگ کے قریب کرتے اور فرماتے:اے خطاب کے بیٹے! کیا تو اس آگ پر صبرکرسکتا ہے؟“ ٭ علی بن فضیل رحمۃ اللہ علیہ ایک دن حضرت سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھے تھے کہ انہوں نے ایک حدیث بیان کی جس میں جہنم کا تذکرہ تھا۔ علی بن فضیل کے ہاتھ میں کاغذ کا ایک بنڈل تھا جب انہوں نے یہ حدیث سنی تو زور سے چیخ ماری اور بے ہوش ہوکر گرگئے اور کاغذ کا بنڈل زمین پر گرپڑا۔حضرت سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تو فرمایا: اگر مجھے آپ کی موجودگی کا علم ہوتا تو میں یہ حدیث بیان نہ کرتا۔ ٭ بعض سلف کے متعلق مروی ہے کہ جہنم کے خوف نے انہیں بیماری میں مبتلا کردیا اور بعض اسی بیماری کی وجہ سے چل بسے ۔ ٭ ضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے رات کے وقت ایک آدمی کو تہجد میں سورة طور کی تلاوت کرتے سنا،جب وہ اس آیت پرپہنچا: ﴿إنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ مَا لَه مِنْ دَافِعٍ﴾ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سنا تو فرمایا: ربّ ِکعبہ کی قسم! جہنم کا عذاب برحق ہے ۔پھر گھر واپس آگئے اور ایک ماہ تک بیمار پڑے رہے، لوگ عیادت کرنے آتے تھے اور معلوم نہیں تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوکیا بیماری ہے؟ بیان کیاجاتا ہے کہ علی بن فضیل نے قرآن مجید کی یہ آیت سنی: ﴿وَلَوْ تَرىٰ إذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُكَذِّبُ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُوٴمِنِيْنَ﴾(الانعام :27) ”کا ش تم اس قت کی حالت دیکھ سکتے، جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کئے جائیں گے ، اس وقت وہ کہیں گے کاش !کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں ۔ “