کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 195
” اگر آسمان سے یہ ندا آئے، اے لوگو! ایک کے سوا تم سب جنت میں داخل ہوجاوٴ گے تو مجھے خطرہ ہے کہ کہیں وہ ایک میں ہی نہ ہوں ۔“ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”اگر میں جنت اور جہنم کے درمیان کھڑا ہوں اور مجھے معلوم نہ ہو کہ کون سی جگہ میرا ٹھکانہ بننے والی ہے تو میں یہ خواہش کروں گا کہ کاش میں اس سے پہلے راکھ کا ایک ڈھیر ہوجاتا قبل اس کے کہ مجھے معلوم ہوتا کہ میں جنت میں جاوٴں گا یا جہنم میں “ ٭ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرمایاکرتے تھے کہ ”جنت میں صرف وہی شخص داخل ہوگا جو اس کا اُمیدوار ہوا اور جہنم سے صرف وہی محفوظ رہے گا جو اس سے خوفزدہ ہوا ۔“ ٭ جہنم کے خوف نے سلف کی نیندیں حرام کردی تھیں ۔ چنانچہ اسدبن وداعہ کے بارے میں آتا ہے کہ ”جب وہ اپنے بستر پر لیٹتے تو ماہی بے آب کی طرح تڑپتے اور فرماتے:جہنم کی یاد مجھے سونے نہیں دیتی اور اٹھ کر مصلیٰ پر کھڑے ہوجاتے۔“ ٭ طاوٴس رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ ”جب وہ اپنے بستر پر لیٹتے تو اس طرح کروٹیں بدلتے جس طرح دانہ کڑاہی میں اُچھلتا ہے۔ آخر بستر سے اٹھ جاتے اور بستر لپیٹ دیتے اور صبح تک قبلہ رو کھڑے رہتے اور فرماتے:جہنم کی یاد نے عابدوں کی نیند اُڑا دی ہے۔“ ٭ ربیع بن خثعم رحمۃ اللہ علیہ ساری ساری رات کھڑے ہو کر اللہ کی عبادت کرتے، بیٹی کہتی :اے میرے باپ! آپ سوتے کیوں نہیں ،حالانکہ سارے لوگ سو رہے ہیں ؟ تو اللہ کا یہ بندہ جواب دیتا : بیٹی! جہنم کی آگ تیرے باپ کو سونے نہیں دیتی۔ ٭ بعض اسلاف کے بارے میں آتا ہے کہ جہنم کی یاد نے ان کی ہنسی بھلا دی تھی اور کبھی ان کے لب مسکراہٹ سے آشنا نہیں ہوئے۔سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ کبھی ہنستے نہیں ہیں ؟ تو فرمایا: لوگو! میں کیونکر ہنسو ،جبکہ جہنم بھڑکائی جاچکی ہے اور آگ کی بیڑیاں ایک دوسرے سے پیوست کی جاچکی ہیں اور جہنم کے داروغے تیا رکھڑے ہیں ۔