کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 187
کہتے تھے کہ اے پروردگار !ہم ایمان لائے ،ہمیں معاف کردے اور ہم پر رحم کر، تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے تو تم نے ان کامذاق بنالیا اور تم یہ بھول گئے کہ میں بھی کوئی ہوں اور تم ان پر ہنستے رہے۔ آج میں نے ان کے صبر کا یہ بدلہ دیا ہے کہ وہی کامیاب ہیں ۔“ ٭ اس کے بعد اہل جہنم جب اپنی ذلت و بدبختی اور اہل جنت کو نعمتوں میں دیکھیں گے تو ان سے سفارش کی آرزو کریں گے ۔شدتِ پیاس سے ان سے پانی اور کھانا مانگیں گے،لیکن انہیں دھتکار دیاجائے گا اور یہ خواہش بھی پوری نہ ہوگی : ﴿وَنَادٰى أَصْحٰبُ النَّارِ أَصْحٰبَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيْضُوْا عَلَيْنَا مِنَ السَّمَآءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ قَالُوْا إنَّ اللهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِيْنَ﴾(الاعراف: 50) ”جب جہنمی گرمی کی شدت سے پھنکے جارہے ہوں گے تو اہل جنت کو پکاریں گے کہ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے ،اسی میں سے کچھ پھینک دو تو اہل جنت جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں منکرین ِحق پر حرام کردی ہیں ۔“ ٭ اس کے بعد دوزخی جہنم کے داروغوں سے درخواست گزار ہوں گے کہ وہ اللہ سے سفارش کریں کہ وہ ہمارے عذاب میں کچھ تخفیف کردے،لیکن ان کی یہ درخواست بھی نہایت حقارت آمیز طریقہ سے ٹھکرا دی جائے گی۔ قرآنِ کریم اس حقیقت کو اس طرح بیان کرتا ہے: ﴿وَقَالَ الَّذِيْنَ فِيْ النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِنَ الْعَذَابِ قَالُوْا أَوَلَمْ تَأتِيْكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ قَالُوْا بَلٰى قَالُْوا فَادْعُوْا وَمَا دُعٰوٴا الْكٰفِرِيْنَ إلاَّ فِىْ ضَلٰلٍ﴾ (غافر: 49) ”پھر دوزخ میں پڑے ہوئے یہ لوگ جہنم کے داروغوں سے درخواست کریں گے: ”اپنے ربّ سے دعا کرو کہ ہمارے عذاب میں بس ایک دن کی تخفیف کردے۔ وہ پوچھیں گے:کیا تمہارے پاس رسول بینات لے کر نہیں آئے تھے ؟وہ کہیں گے:ہاں ، تو جہنم کے داروغے جواب دیں گے :”پھر تم ہی دعا کرو اور کافروں کی دعا اِکارت ہی جانے والی ہے۔“ ٭ اس کی صورت گری ایک حدیث میں اس طرح کی گئی ہے : ”دوزخی جہنم کے داروغوں کے سردار مالک کو آواز دیں گے ۔ مالک چالیس سال کے بعد جاکرانہیں یہ جواب دے گا :تم اس میں ہمیشہ رہو ۔پھر وہ اپنے پروردگار کو پکاریں گے اور کہیں