کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 182
اس نے کہا: اللہ کی قسم، میں تو اسے پسند نہیں کرتا۔ اس نے کہا: خوب سمجھ لے کہ انہوں نے امیرالمومنین سے کہہ دیا ہے اور اس بات پر حلف اُٹھایا ہے کہ اشتر کی طرف پیغام بھیج کر اسے واپس بلاوٴ ورنہ ہم تمہیں اپنی تلواروں سے اس طرح قتل کریں گے جیسے ہم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ہے یا پھر تمہیں تمہارے دشمن کے سپرد کردیں گے چنانچہ اشتر ان کی طرف واپس لوٹ آیا اور کھا : اے امیرالموٴمنین میں قوم کی صفیں درہم برہم کررہا ہوں اور وہ پسپا ہونے کو ہے تو وہ پکار پکار کر کہنے لگے کہ امیرالمومنین نے تحکیم کو قبول کرلیا ہے اور وہ قرآن کے حکم پرراضی ہوگئے ہیں ۔ اشتر نے کہا۔ اگر امیرالمومنین راضی ہوگئے ہیں اور انہوں نے تحکیم کو قبول کرلیا ہے تو میں بھی راضی ہوں ۔ اس پر لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ امیرالمومنین راضی ہیں اور امیرالمومنین نے تحکیم کو قبول کرلیا ہے۔ امیرالمومنین زمین پر نظریں جھکائے ایک کلمہ بھی نہیں بول رہے تھے پھر آپ کھڑے ہوئے اور لوگ خاموش ہوگئے توآپ نے فرمایا: میرا معاملہ تمہارے ساتھ اس وقت تک خوب رہا جب تک میں نے تمہیں جنگ کے لئے نہیں بلایا، اللہ کی قسم، تم سے اس کے متعلق عہد و پیمان ہوا تو اس کی خلاف ورزی ہوئی اور تمہارے دشمن سے اس کا عہد وپیمان لیا گیا تو اس کی خلاف ورزی نہ ہوئی اور تم میں اس کا تصور بھی بھیانک ہے اور وہ ممنوع چیز بن گئی ہے اور تم نے زندگی کو محبوب سمجھ لیا ہے اور میں تمہیں اس بات پر مجبورنہیں کرتا جو تمہیں ناگوار ہے پھر آپ بیٹھ گئے۔ (دیکھئے علی خطی الحسین: ص34۔35) کاش کہ ان وفا نماوٴں کو عملی طور پر امیرالمومنین  اور ان کے عالی مقام صاحبزادوں کے کندھوں سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا نصیب ہوتا تو وہ کبھی ناکام نہ ہوتے اور نہ ہی انہیں توابین بننا پڑتا اور نہ ہی ان کی نسلوں کو اہل السنہ پر ناصبيت کا الزام لگانے کی ضرورت پڑتی۔ نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر پڑی جب اپنے گناہوں پر نظر تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا !!