کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 181
کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ”عسکری لحاظ سے امیرالموٴمنین کے فدا کاروں کا حال نصر بن مزاحم کی زبانی سنئے،کیونکہ وہ ہدیر والی رات کی صبح کو لشکر معاویہ رضی اللہ عنہ کا جائزہ لے رہے تھے اور اسی دوران ان کے پاس امام علی رضی اللہ عنہ کا پیامبر یہ پیغام لے کر گیا کہ امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ میرے پاس آوٴ، تو اس نے کہا کہ اس موقع پر مناسب نہیں کہ آپ مجھے اپنے محاذ سے پیچھے ہٹا دیں ، کیونکہ میں فتح کی اُمید پر ہوں ، لہٰذا جلدی نہ کیجئے۔چنانچہ امیرالمومنین کے پیامبریزید بن ہانی نے واپس لوٹ کر آپ کو اس جواب کی خبر دی۔ (نصر بن مزاحم کہتے ہیں کہ) یزید بن ہانی ابھی ہمارے پاس پہنچا ہی تھا کہ عراقی کمانڈر اشتر کی طرف سے غبار اُڑا اور آوازیں بلند ہوئیں اور اہل عراق کی فتح و نصرت اور اہل شام کی شکست و رسوائی کے دلائل نمایاں ہونے لگے تھے کہ آپ کے شیعہ آپ سے کہنے لگے: واللہ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ نے اسے لڑائی جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تم میرے متعلق یہ گمان رکھتے ہو کہ میں نے اپنے قاصد کو کوئی خفیہ ہدایات دی ہیں ؟ کیا میں نے تمہارے سامنے علانیہ گفتگو نہیں کی اور تم سن بھی رہے تھے؟ انہوں نے کہا: اس کی طرف پیغام بھیجو کہ وہ آپ کے پاس آئے ورنہ ہم آپ کو چھوڑ کر جدا ہوجائیں گے۔ آپ نے فرمایا: اے یزید تم پر افسوس، اسے جاکر کہو کہ میری مانے اور واپس آجائے کیونکہ فتنہ واقع ہوچکا ہے۔ چنانچہ یزید اس کے پاس گیا اور اسے خبر دی تو اشتر نے کہا: کیا یہ مصاحف قرآن بلند کئے گئے ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں ۔ اشتر نے کہا: اللہ کی قسم، تو فتح کی طرف نہیں دیکھ رہا؟ کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ انہیں کس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے؟ کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ اللہ ہمارے لئے کیا کررہا ہے؟ کیا یہ مناسب ہے کہ ہم اسے چھوڑ کر واپس مڑ جائیں ؟ یزید نے اسے جواب دیا کہ کیا تو پسند کرتا ہے کہ تو یہاں کامیاب ہوجائے اور امیرالمومنین اپنی جگہ پر ہی دشمن کے سپرد کردیئے جائیں ؟