کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 179
کے پیش کردہ نہیں بلکہ اہل بیت کے نام لیواوٴں کے ہی ہیں ۔ ان میں پہلا حوالہ تو نہج البلاغة (ج1/187 تا 189) سے ہے اور دوسرا علی خطی الحسین سے ہے۔ چنانچہ نہج البلاغۃ میں ہے کہ جب محبانِ علی رضی اللہ عنہ نے شیعانِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں کم ہمتی اور سرد مہری کا مظاہرہ کیا تو آپ نے منبر پر فرمایا: أما والذي نفسى بيده ليظهرن هوٴلاء القوم عليكم ليس لأنهم أولى بالحق منكم ولكن لإسراعهم إلى باطل صاحبهم،وإبطائكم عن حقي ولقد أصبحت الأمم تخاف ظلم رُعاتها وأصبحت أخاف ظلم رعيتى، استنفرتكم للجهاد فلم تنفروا،واسمعتكم فلم تسمعوا،ودعوتكم سرا وجهرا فلم تستجيبوا،ونصحت لكم فلم تقبلوا أشهود كغياب،وعبيد كارباب؟! أتلو عليكم الحكم فتنفرون منها،وأعظكم بالموعظة البالغة فتتفرقون عنها، وأحثكم على جهاد أهل البغي فما آتي على آخر القول حتى أراكم متفرقين أيادى سباء، وتتخادعون عن مواعظكم، أقومكم غدوة وترجعون إلى عشية كظهر الحنين عجز المقوم وأعضل المقوم،أيها الشاهدة أبدانهم الغائبة عقولهم، المختلفة أهواوٴهم، المبتلى بهم أمراء هم،صاحبكم يطيع الله وأنتم تعصونه … لوددت والله أن معاوية صارفنى بكم صرف الدينار بالدرهم فأخذ مني عشرة منكم وأعطاني رجلا منهم،يا أهل الكوفة منيت بكم بثلاث واثنتين صم ذووا أسماع و بُكم ذووا كلام، وعمى ذووا أبصار، لا أحرار صدق عند اللقاء ولا إخوان ثقة عند البلاء،تربت أيديكم يا أشباه الابل غاب عنها رعاتها كلما جمعت من جانب تفرقت من جانب آخر (نہج البلاغۃ : ج1/187/189) ”عوام، اپنے حکام کے ظلم سے ڈرتے ہیں لیکن میں اپنی رعایا کے ظلم سے ڈرتا ہوں ، میں نے تمہیں جہاد کے لئے میدانِ جنگ میں نکلنے کا حکم دیا لیکن تم نے گھروں سے نکلنا گوارا نہ کیا، میں نے تمہیں سنانے کی کوشش کی لیکن تم نے نہ سنا، میں نے تمہیں دن رات دعوت دی، لیکن تم نے مسترد کردی، میں نے تمہیں نصیحت کی لیکن تم نے قبول نہ کی۔کیا تم ان لوگوں کی