کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 178
سامنے اپنے پیشرو شہداء کرام کا اُسوہ حسنہ بھی تھا کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے بھائی جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں اور دونوں شہزادوں نے عزت و رفعت ِاسلام کے دور میں پرورش پائی تھی، اس لئے ہجرت اور جہاد کے مصائب و آلام جیسی اُن تکالیف سے محفوظ رہے جو اللہ کی خاطر آپ کے اہل بیت کرام کو پہنچی تھی لہٰذا اللہ نے ان کی بزرگی کی تکمیل کے لئے اور ان کے درجات کو بلند کرنے کے لئے اُنہیں درجہ شہادت عطا فرمایا اور آپ کی شہادت بہت بڑا صدمہ تھی اور اللہ نے صدمہ کے وقت انا لله وإنا إليه راجعون پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن میں ہے : ﴿وَبَشَّرِ الصَّابِرِيْنَ ٭ الَّذِيْنَ إذَا أصَابَتْهُمْ مُصِيْبَةٌقَالُوْا إنَّا ِللهِ وَإنَّا إلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ﴾ اہل بیت ِعظام رضی اللہ عنہم کے وفا نماوٴں کی جفا کاریاں اس روشن حقیقت کے باوجود کہ اہل السنہ ہی صحیح معنوں میں اہل بیت کرام کے قدردان ہیں ، پھر بھی وفا نمایانِ اہل بیت(جو وفا کا بظاہر دم بھرتے ہیں ) اُن پر اہل بیت سے عداوت کا بہتان لگاتے ہیں اور انہیں ناصبی کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اپنے کندھوں پر خود ہی شاباش دے کر محبانِ اہل بیت کا دم بھرتے ہیں ، حالانکہ ائمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم اپنے دور میں اِنہی محبت کا دم بھرنے والوں سے بڑے تنگ اور پریشان تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ وہ ان سے ان کی جان چھڑوائے،کیونکہ یہ لوگ اُنہیں اپنی وفاداریوں کا یقین دلا کر خطرناک مقام پر کھڑا کردیتے تھے اور پھر سرد مہری دکھانا شروع کردیتے تھی۔چنانچہ امیرالمومنین اُنہیں کم ہمتی اور بزدلی دکھانے پر شرم اور عار دلانے کے لئے لشکر ِشام کی مثالیں پیش کرتے ،لیکن یہ ٹس سے مس نہ ہوتے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ وہ لوگ متلون مزاج تھے اور اپنے دعواے محبت میں پختہ نہ تھے، اگر قدرے پختہ تھے بھی تو اس کے بدلے میں کانٹا چبھنے کے برابر تکلیف برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے حضرت امیرالمومنین کو ان کے دورِ خلافت میں پریشان رکھا اور اُنہیں اپنے مشن میں کامیاب نہ ہونے دیا، چنانچہ ہم ان کی سرد مہریوں کے دو حوالے پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔ ان حوالوں کی خصوصیت یہ ہے کہ خارجیوں یا اہل السنہ