کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 171
حضرت عقیل رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور ان کی ساری اولاد، حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور ان کی ساری اولاد اور خصوصاً سیدین طاہرین کریمین جو کہ نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں ۔اور اُنہیں ان دونوں سے محبت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ بڑے سردار رضی اللہ عنہ (حضرت حسن رضی اللہ عنہ ) نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے کمالِ حلم اور بردباری کا مظاہر کیا اور اپنے حق کی قربانی دے کر اپنے نانا کی اُمت کے خون کو بچایا اور دوسرے سردار رضی اللہ عنہ نے نیک نیتی سے قدم بڑھائے، پھر نیک نیتی سے صلح کا ہاتھ بڑھایا ،لیکن اپنے بدعہد کوفی ساتھیوں کے ہاتھوں مظلوم شہید ہوئے۔ ان کا ایمان ہے کہ سب شہداء کرام، اپنے عم محترم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور دیگر شہدا کے ہمراہ اعلیٰ علیین میں عزت و احترام کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اس مختصر وضاحت کے بعد اب ہم نہایت اختصار کے ساتھ بالترتیب حضرت علی المرتضیٰ اور ان کی اولاد کے مناقب بیان کرتے ہیں تاکہ ان بہتان بازوں کے الزامات کی قلعی کھولی جا سکے جو رات دن اہل السنہ پر گستاخی ٴ اہل بیت کا بہتان لگاتے ہیں !! اول: امیرالمومنین علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ حضرت سہل رضی اللہ عنہ بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ جنگ ِخیبر کے دن اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کل میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا اور وہ شخص، اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول، اس سے محبت کرتے ہیں ۔“ چنانچہ لوگ ساری رات بے چین رہے کہ پتہ نہیں ، کس (خوش نصیب) کو جھنڈا ملے گا۔حضرت سہل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوگ صبح سویرے حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور ہر کوئی یہ اُمید لئے ہوئے تھا کہ جھنڈا اُسے ہی ملے گا، چنانچہ آپ نے فرمایا: علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کہاں ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ آشوبِ چشم میں مبتلا ہے، آپ نے فرمایا: اس کی طرف کسی کو بھیج کر بلا لاوٴ۔ چنانچہ اُنہیں بلا لیا گیا تو آپ نے ان کی آنکھوں میں لعاب تھتکارا اور شفا کی دُعا کی، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ اس طرح شفایاب ہوئے کہ گویا آپ کو سرے سے کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔ پھر آپ نے اُنہیں جھنڈا عطا فرمایا۔ حضرت علی المرتضیٰ نے پوچھا: