کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 165
منتقل ہوا۔ وہ خدا کے اوتار تھے۔ پھر یہ نور نسلاً بعد نسل ان کے اماموں میں منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ اسماعیلی اپنے امام حاضر کو حاضر ناظر سمجھتے ہوئے اس سے رفع حاجات اور مشکل کشائی نیز گریہ و زاری کی دعائیں حتیٰ کہ سجدہ بھی یہ سمجھ کر کرتے ہیں کہ ان کے امام میں اللہ کانور منتقل ہوکر آچکا ہے۔ لہٰذا ان کا حاضر امام خدا کا قائم مقام یا اوتار ہے۔ انتقالِ نور کے سلسلہ میں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ صرف بڑے بیٹے کی طرف ہی منتقل ہوتا ہے یا دوسرے کی طرف بھی ہوسکتا ہے؟ اگر یہ صرف بڑے بیٹے کی طرف ہی منتقل ہوتا ہے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اس نور سے کیوں محروم کیا جاتا ہے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ میں یہ نور کیوں تسلیم کیا جاتا ہے؟ اور اگر یہ چھوٹے بیٹوں کی طرف بھی منتقل ہوسکتا ہے تو اثنا عشریوں کا کیا قصور ہے جنہوں نے بڑے بیٹے اسماعیل کی غیر موجودگی یا وفات کی وجہ سے چھوٹے بیٹے موسیٰ کاظم کو امام تسلیم کرلیاتھا یا بوہروں کا کیا قصور ہے جنہوں نے اس نور کو نزّار کے بجائے مُستعلي میں تسلیم کرلیا تھا۔ انتقالِ نور کے سلسلہ میں یہ بات بھی باعث ِتعجب ہے کہ 11 /جولائی 1957ء کو آغا خان سوم سلطان محمد شاہ نے اپنے بڑے بیٹے پرنس علی خان اور چھوٹے بیٹے پرنس صدر الدین دونوں کی موجودگی میں اپنے پوتے یعنی پرنس علی خان کے بیٹے شاہ کریم حسینی کے امام حاضر ہونے کا اعلان کیا اور بیٹیوں کو امامت اور نورِ امامت سے محروم کردیا۔ اس واقعہ سے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انتقالِ نور کاصرف امام حاضر کو ہی علم ہوتا ہے اور دوسروں کو اس وقت معلوم ہوتا ہے جب امام حاضر اعلان کرے۔ یہ اُصول بھی واقعات پر فٹ نہیں بیٹھتا۔ اس طرح تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ دونوں ہی امامت اور نورِ امامت سے محروم ہوجاتے ہیں کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے قبل کسی کو بھی امامت کا اعلان نہیں فرمایاتھا۔ اسی طرح جناب اسماعیل بھی اپنے بیٹے محمد کے امام ہونے کا اعلان نہ کرسکے تھے اور اسکی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ بہرحال انتقالِ نور کے سلسلہ میں ان کے ہاں کوئی مستقل اصل نظر نہیں آتی۔ اسی بے ضابطگی کی وجہ سے اسماعیلی مذہب دورِ فاطميين سے لے کر آج تک تفرقہ و تشتت کا شکار ہوکر روبہ انحطاط چلاآرہا ہے۔