کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 164
شیعانِ علی نے ابتدا ہی میں یہ تو طے کرلیا کہ امامت اولادِ علی رضی اللہ عنہ کا حق ہے مگر اس کی جزئیات میں بہت سے اختلافات واقع ہوئے، مثلاً امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ہو یا صرف بنو فاطمہ رضی اللہ عنہا میں ، کیسانی فرقہ نے حضرت علی کے بیٹے محمد بن حنفیہ کو امام تسلیم کرلیا اور الگ فرقہ بن گیا۔ لیکن شیعہ کے باقی فرقے صرف بنوفاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہی امامت کا حقدار سمجھتے ہیں اور عجیب تر بات یہ ہے کہ اسماعیلی حضرت فاطمہ کے بڑے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو امامت سے خارج کردیتے ہیں ، جبکہ اثنا عشری دوسرا امام حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہی کو تسلیم کرتے ہیں ۔ نسلی امامت کے سلسلہ میں اس اختلاف کا بھی فیصلہ نہ ہوسکا کہ آیا یہ امامت صرف بڑے بیٹے کا حق ہے یا چھوٹا بھی امام بن سکتا ہے۔ اسماعیلیوں نے امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے بیٹے کو امام تسلیم کیا حالانکہ وہ امام جعفر صادق (م148ھ) کی وفات سے پانچ سال پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔ اثنا عشری ان کے چھوٹے بیٹے موسیٰ کاظم کو امام تسلیم کرتے ہیں پھر اسماعیلیوں میں سے بھی کچھ لوگ چھوٹے بیٹے کی امامت کے قائل ہوگئے۔ مستعلوی بوہرے اسی وجہ سے نزاریوں سے الگ ہوئے کہ اُنہوں نے مستنصر باللہ کے چھوٹے بیٹے مستعلی کو امام تسلیم کرلیا، جو اس وقت سلطان تھے اور بڑے بیٹے نزار اور ان کے بیٹے ان کی قید میں تھے۔ تیسرا اختلاف بعض اماموں کے مستور ہونے یا ان کو مستور کردینے سے ہوا۔ مستور ہونے، پھر قیامت کے قریب ظاہر ہونے کا عقیدہ تقریباً سب شیعہ فرقوں میں پایا جاتاہے۔ کسی فرقہ کے نزدیک تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی فوت نہیں ہوئے بلکہ بادلوں میں مستور ہیں ۔ اسماعیل بھی مستور تھے، محمد بن اسماعیل بھی، اثنا عشری کے بارہویں امام مہدی بھی اور مستعلیوں کے امام طیب بھی۔ ایسے ہی اختلافات نے شیعوں کو بے شمار فرقوں میں تقسیم کردیا۔ اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق امامت کو بطورِ حق نسلاً بعد نسل آگے منتقل کرنے کا عقیدہ سراسر اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اماموں کے معصوم ہونے اور ان کی غیر مشروط اطاعت کا عقیدہ معنوی طور پر عقیدہٴ ختم نبوت کا نقیض (متضاد) ہے۔ (2) نور ِامامت نور ِ امامت اسماعیلیوں کا برتر اُصول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں