کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 163
رکھتے ہیں ، مگر اسلام سے ان کا کچھ تعلق نہیں ہے۔ اور یہ دو طرح کے ہیں : (1)عقائد سے متعلق اور (2)عبادات و شعائر سے متعلق الف: اسماعيلى عقائد عقائد سے متعلق تین اُمور قابل ذکر ہیں : (1) امامت (2) نورِ امامت اور (3)شانِ امامت (1) امامت امامت کا عقیدہ صرف اسماعیلیوں میں ہی نہیں بلکہ شیعہ حضرات کے تمام فرقوں میں یکساں طور پر پایا جاتاہے۔ قرآنِ کریم کی ر و سے مسلمانوں کا امام صرف ان میں ان کا سب سے متقی شخص ہی ہوسکتا ہے اور تقویٰ کا نسلاًبعد نسل اولاد اور ان کی اولاد میں منتقل ہوتے چلے جانا عقلاً محال ہے۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک مثال ایسی ملتی ہے جہاں چار پشتوں تک یہ سلسلہ رہا۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی تھے، پھر ان کے بیٹے اسحق علیہ السلام نبی ہوئے، پھر ان کے بیٹے یعقوب نبی ہوئے اور پھر ان کے بیٹے یوسف علیہ السلام نبی ہوئے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا۔ اب اثنا عشری تویہ سلسلہ بارہ اماموں تک چلا کر بارہویں امام کو غائب بتلاتے ہیں ، جبکہ اسماعیلی (نزاری) اور بوہرے اس کو تاقیامت جاری رکھنے کے قائل ہیں ۔ اس وقت نزاری اسماعیلیوں کے 49 ویں امام شاہ کریم حسینی ہیں اور مستعلوی اسماعیلیوں یا بوہروں کے 51 ویں امام ملا طاہر سیف الدین تھے، جن کا انتقال چند سال قبل ہواہے۔ اسماعیلی بھی ابتداء ً کسی امام کے غائب ہونے اور پھر کسی وقت بطورِ امام مہدی اس کے ظاہر ہونے کے قائل تھے ،جیسا کہ ان کا اپنے ساتویں امام محمدبن اسماعیل کے متعلق عقیدہ تھا اور اسی لئے اس فرقہ کو سَبعيہ ( یعنی سات اماموں والا) بھی کہتے ہیں جبکہ اثنا عشرى اپنے اماموں کا سلسلہ چلا رہے تھے۔ پھر جب اثنا عشرى نے اپنے بارہویں امام، امام مہدی کے غائب ہونے اور دوبارہ کسی وقت ظاہر ہونے کے عقیدہ کو اختیار کرلیا تو اسماعیلیوں کے عقیدہ میں غالباً رقابت کے طور پر ایک بنیادی تبدیلی یہ آئی کہ انہوں نے اپنے پہلے عقیدہ کو چھوڑ کر از سر نو امامت کے سلسلہ کو جاری کردیا۔[1] جو آج تک جاری ہے۔