کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 162
زیر تربیت ابوعبداللہ نے اسماعیلی مذہب کے راز سیکھے۔ جب اسماعیلی تعلیمات میں بالکل پختہ ہوگئے تو حضرت امام علیہ السلام کے حکم سے آپ کو داعی بنا کر مغرب (شمالی افریقہ) کی طرف بھیج دیا گیا۔“[1] اسماعیلی راہبوں کو کیا راز سکھلائے جاتے تھے؟ یہ بات ان کے لٹریچر سے نہیں مل سکتی۔ اس فرقہ کا ایک عظیم داعی حسن بن صباح (م1124ء/518ھ) بھی تھا جس کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ”حضرت امام مستنصر باللہ کے زمانے کے ایک عظیم داعی اور بہادر فدائی تھے۔ جنہوں نے قلعہ الموت فتح کیا تھا۔“[2] اب اس عظیم داعی کے کردار سے کچھ نہ کچھ اُن خفیہ رازوں پر روشنی پڑ جاتی ہے۔ اس داعی کا کردار یہ تھا کہ وہ ”ایک دہشت پسند اور خفیہ جماعت کا بانی تھا۔اس نے کوہ البرز میں واقع قلعه اَلَمُوْت (اَلَمُوْط) کو فتح کیا، وہ اپنے مریدوں کوحشیش پلوا کر بے ہوش کردیتا تھا۔ پھر وہ انہیں اس فردوس میں پھراتا جو اس نے وادی الموت میں بنائی تھی۔ اس بہشت میں اس نے بہت سی خوبصورت عورتیں رکھی ہوئی تھیں ۔اس دہشت پسند جماعت کے ارکان کو فدائین کہا جاتاتھا اور ان فدائین سے مشہور ہستیوں کے قتل کرنے کا کام لیا جاتا اور اس کے عوض انہیں بہشت میں رہائش مہیا کی جاتی تھی۔اس کے جانشین صدیوں اپنے فدائیوں کے بل بوتے پر اپنے ملحدانہ خیالات کی نشرواشاعت کرتے رہے۔ وسط ِایشیا کے بڑے بڑے حکمران ان سے لرزہ براندام رہتے تھے۔ آخر ساتویں صدی ہجری میں ہلاکو خان نے قلعہ الموت کو فتح کیا اور ان کی بہشت اور ملجاء و ماویٰ کو تہس نہس کرکے ایک عالم کو ان کے مظالم سے رہائی دلائی۔“[3] غالباً ایسے ہی کچھ راز ہوتے تھے جو اس فرقہ کے داعیوں کو سکھلائے جاتے تھے۔ … حصہ دوم… اس حصہ میں چند ایسے اُمورکا ذکر کیا جائے گا جواسماعیلی فرقہ میں تو روحِ رواں کی حیثیت