کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 160
(2) نو روز اور سالِ نو مسلمانوں کا ہجری سال چاند سے تعلق رکھتا ہے اور یہ یکم محرم الحرام کو شروع ہوتا ہے۔ تاہم یہ مسلمانوں کا کوئی تہوار نہیں ہے۔ اسماعیلی اس مسئلہ میں بھی متضاد روش رکھتے ہیں ۔ ان کا سال شمسی ہے۔ 21/ مارچ کو شروع ہوتا ہے اور اس دن اسماعیلی تہوار بھی مناتے ہیں ۔ درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے: ”نوروز کی خوشی منانا اسماعیلیوں کی ایک قدیم روایت ہے۔ اس کی سالانہ مجلس 21/ مارچ کو صبح صادق کے بعد ہر ایک جماعت خانے میں منعقد کی جائے۔ 21/ مارچ کو مذہبی نقطہ نگاہ سے ہمارا نیا سال شروع ہوتا ہے۔“[1] اب یہ تو ظاہر ہے کہ 21 مارچ (نوروز) سے مجوسیوں اور سورج پرستوں کو تو عقیدت ہوسکتی ہے مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق ؟ (3) تہذیب ِمغرب سے دلدادگی یہ تو سب جانتے ہیں کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب کی نقیض (ضد) ہے۔ اسماعیلیوں میں عورت کا پردہ نام کی کوئی چیز نہیں ۔ جماعت خانوں میں البتہ عورتوں کے بیٹھنے کی الگ جگہ مقرر ہوتی ہے ،لیکن کئی قسم کی مجالس میں عورتیں اور مرداکٹھے ہوتے ہیں ۔ حاضر امام اور آپ کے باپ دادا کا تہذیب ِمغرب سے دلدادگی کا یہ عالم ہے کہ حاضر امام کی والدہ لارڈ پرنس کی بڑی صاحبزادی ہیں ۔ آپ نے برطانیہ، سوئٹزر لینڈ اور ہاورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرکے گریجوایٹ کی ڈگری لی ہے، لیکن دینی تعلیم کی شاید آپ کو ضرورت ہی نہ تھی۔ ہوسکتا ہے کہ زیر نورِ خدا کی طرح یہ دینی علم بھی ان اماموں میں نسلاً بعد نسل از خود ہی منتقل ہوتا رہتا ہے۔ امام حاضر کے دادا آغاخان سوم ریس کورس کے انتہائی شیدائی تھے اور ان کے بیشتر گھوڑوں نے بازی جیتی ہے۔ حاضرامام اور ان کے آباوٴ اجداد کا لباس اور وضع قطع بھی تہذیب ِمغرب کی دلدادگی پر بڑی واضح دلیل ہے۔ علاوہ ازیں تمام جماعت خانوں میں امام