کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 157
(جماعت خانہ کے منتظمین وغیرہ) کا منہ چونکہ موٴمنوں یا دینداروں کی طرف ہوتا ہے، اس لئے ان کیلئے ان کے سامنے علیحدہ امام کی تصویر لگی ہوتی ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کر لیجیے کہ نماز کے سلسلہ میں اسماعیلیوں اور عام مسلمانوں کے درمیان کیا قدرِ مشترک باقی رہ جاتی ہے؟
(3) زکوٰة اسلام کا تیسرا اہم رُکن
جس کا حکم قرآن میں تقریباً ستر بار آیا ہے۔ اس کا عام مفہوم یہ ہے کہ ہر غنی یا صاحب ِنصاب مسلمان ہر سال بعد اپنی بچت کا چالیسواں حصہ نکال کر اللہ کی راہ میں دے دیتا ہے۔ زکوٰة، انفرادی طور پر نکالی جائے یا اجتماعی طور پر اس کا کثیر حصہ محتاج و نادار افراد کو دیا جاتا ہے، گویا زکوٰة کے پیسہ کا بھاوٴ امیرطبقہ سے غریب کی طرف ہوتاہے۔
اسماعیلی فرقہ میں ایسی زکوٰة کا تصور تک نہیں ۔ اس کے بجائے ان کے ہاں کا ہر دیندار اپنی آمدنی کا دسواں حصہ (دسوند) نکال کر اپنے امام حاضر کو پیش کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ پھر اسے امام حاضر کے علاوہ اپنے پیر کے لئے بھی آمدنی کا چالیسواں حصہ نکالنا ہوتا ہے اور اس کے علاوہ شکریت اور دوسری قسم کے نذرانے الگ ہیں ۔ درج ذیل گیان ملاحظہ فرمائیے:
”ست گرجی (سچے گوروجی یعنی حاضر امام) کی خدمت ’دسوند‘ دیتے رہئے۔
اور چالیسواں حصہ پیر کو دیتے رہئے اور بے شمار ’شکریت‘ دیتے رہئے۔
جو خلوص کے ساتھ دسوند اور شکریت دیتے ہیں ،ان کی جب آخری گھڑی آئے گی ( یعنی موت کا وقت) تو یہ آپ (امام) کے پاس پہنچیں گے۔“[1]
اب دیکھئے زکوٰة اور دسوند میں درج ذیل بنیادی فرق ہیں :
(1) زکوٰة بچت پر لگتی ہے جبکہ ’دسوند‘ آمدنی پر لگتی ہے۔
(2) زکوٰة کی شرح اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ ہے جبکہ دسوند کی شرح تحریر میں دس فیصد اور عملاً ساڑھے بارہ فیصد ہوتی ہے یا آٹھواں حصہ ہوتی ہے۔
(3) زکوٰة صرف مالداروں پر لگتی ہے، جبکہ دسوند امیر و غریب سب کے لئے ہے۔
(4) زکوٰة میں زکوٰة ادا کرنے والے کی ضروریات کا لحاظ رکھا جاتا ہے،لیکن دسوند میں کچھ