کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 154
وہ ملک عرب کی آبادی کے لئے ہے۔ جبکہ گنان کو سات سو سال ہوئے ہیں اور تم لوگوں کے لئے گنان ہے اور اسی پر عمل کرنا۔“[1]
قرآن کو چھوڑنے اور گنان کو اپنانے کی و جہ بھی خوب بتلائی ہے۔ آنجہانی سرآغا خان سوم سلطان محمد شاہ اپنے فرامین کی قرآن پر بالادستی کا اظہار یوں فرما رہے ہیں :
(5) ”دین کی ہدایت کے لئے صرف کتابیں اور تحریری الفاظ ہی کافی نہیں ۔“ (لندن جماعت خانہ :11/ جون 1951ء) [2]
(6)”اسماعیلیوں کے پاس ہدایت کے لئے کوئی تحریری کتاب نہیں بلکہ حیاتِ امام ہے۔“ (بمبئی، 28 دسمبر 1945ء) [3]
غور فرمائیے کہ جب فرامین مبارک بلکہ گنان شریف کے مقابلہ میں قرآن شریف کی بھی کچھ حیثیت نہ ہو تو حدیث شریف کس کھیت کی مولی ہوئی۔
اب اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اسماعیلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے امام حاضر کا درجہ بلند تر سمجھتے ہیں ۔ درج ذیل سوال جواب ملاحظہ ہو:
سوال: ’ پیغمبر ‘ یعنی ناطق اور ’اساس‘ یعنی امام… ان دونوں میں کس کا درجہ بڑا ہے؟
جواب: اساس کا درجہ بڑا ہے، کیونکہ جو کام پیغمبر وں سے نہیں ہوسکتا تھا وہ ’اساس‘ امام کرتے تھے اور پیغمبر وں میں سے اماموں کو بنانے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ہوا تھا۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اساس کا درجہ بڑا ہوتا ہے۔ پیغمبر اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں اور ا س کے ذریعہ اللہ کی پہچان کراتے ہیں جبکہ ’اساس‘ یعنی امام اپنی ذاتی طاقت سے بذاتِ خود ہدایت کرتے ہیں ۔ اپنی پہچان آپ کرواتے ہیں اور ان کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی ۔[4]