کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 150
٭ جو اسماعیلی اس حال میں مرجائے کہ اپنے دورکے امام پر ایمان نہ رکھتاہو اور اس کی اطاعت کا اس نے پیمان نہ کیا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔ ٭ ان کے نزدیک امام متعدد ایسی صفات کا حامل ہوتا ہے جو مسلمانوں کے ہاں صرف اللہ ربّ العٰلمین سے مخصوص ہیں ۔امام باطنی علم کا بھی حامل ہوتا ہے اور ہر اسماعیلی اپنی کمائی سے اسے 5 واں حصہ ادا کرنے کا پابند ہے۔ ٭ تقیہ اور اپنے نظریات کو پوشیدہ رکھنے پر یہ لوگ ایمان رکھتے ہیں اور ایسے مواقع پر یہ اُس سے کام لیتے ہیں جب ان پر حالات تنگ ہوجائیں ۔ ٭ امام ہی اسماعیلی دعوت کا محور ومرکز ہے۔ اور ان کے عقائد اسی امام کے گرد گھومتے ہیں جو عقائد وہ دے ، اسے اختیار کرنا واجب ہوتاہے۔ ٭ یہ امام ظاہر بھی ہوسکتاہے اور مستور بھی۔ اگر وہ ظاہر تو اس کی امامت کے دلائل کا ظاہر ہونا ضروری نہیں ، البتہ اگر وہ پوشیدہ ہو تو اس کے دلائل کا ظاہرہونا بہرحال ضروری ہے ٭ تناسخ کا عقیدہ بھی ان کے ہاں پایا جاتا ہے ، ان کے نزدیک امام تمام انبیا کا اکیلا وارث ہوتا ہے ، ایسے ہی تمام ائمہ کرام کا بھی وہی وارث ہوتا ہے۔ ٭ اللہ کی بیشتر صفات کے یہ لوگ منکر ہیں گویا اللہ ان کے نزدیک عقل وتصور سے بالا تر شے ہے۔ا ن کے عقائد کی مزید تفصیلات کے لئے آئندہ مضمون کا مطالعہ کریں ۔ مذکورہ بالا معلومات ’ ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ‘WAMY کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مانع حماد جہنی کے زیر نگرانی تیار کردہ ’انسائیکلو پیڈیا برائے ادیان وفرق معاصرہ‘ سے ماخوذ ہیں ۔ اس موضوع پر علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الاسماعيلية، پنجاب یونیورسٹی کے دائرہ معارفِ اسلامیہ میں مادّہ ’اسماعیلیہ‘ اور برنارڈ لیوس کی کتاب أصول الإسماعيلية والفاطمية والقرمطيةکا مطالعہ مفید ہوگا۔ مذکورہ بالا تفصیلات راقم نے مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مضمون کے آغاز میں درج کرنے کے لئے تحریرکی تھیں ، لیکن طوالت کے باعث اسے ایک مستقل مضمون بنادیا گیا ہے۔ مولانا کے مضمون کا مطالعہ اس کے بعد کرنا مفید ہوگا۔ راقم کے نانا مرحوم مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مضمون میں جن عقائدکو بنیاد بنایا ہے، اُس کے لئے اُنہوں نے بمبئی میں اُنہی کی شائع کردہ کتب کو پیش نظر رکھا ہے۔یہ کتب خود آغا خانی تنظیموں نے شائع کی ہیں ۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ خود یہی عقائد اختیار کرتے ہیں اور اِنہی پر عمل پیرا ہیں ۔