کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 148
الصادق کی طرف منسوب ہے لیکن دراصل الحاد، اباحیت پسندی اور اسلامی اخلاق کو منہدم کرنے کے لئے مصروفِ کار ہے۔ قرامطہ کا اثر ورسوخ زیادہ تر شام اورعراق میں رہا ہے۔ (2) فاطمى اسماعيلى : یہ اسماعیلی فرقے کا بنیادی گرہ ہے۔ اس گروہ کے حسن بن حوشب نے یمن میں 266ہ میں فاطمی سلطنت قائم کی۔اسی فرقے کے عبید اللہ نے تیونس میں 297ھ میں فاطمی سلطنت کو قائم کیا۔ اس کے جانشینوں میں معز لدین اللہ نے 361ھ میں مصر کو فتح کرکے فاطمی سلطنت میں شامل کرلیا، 487 ھ تک ان کی حکومت قائم رہی۔پھر انہی فاطمیوں کے ذیلی گروہ مستعلي فاطمیوں نے 555ھ تک مصر ، حجازاور یمن پر حکومت کی۔ حتیٰ کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 555ھ میں مصر کو ان سے آزاد کرایا۔ (3) حشيشى اسماعيلى :حسن بن صباح (م1124ء) اس کا بانی تھا۔ یہ لوگ حشیش کو کثرت سے استعمال کرتے۔ آلَمُوْت کے نام سے قلعہ قائم کرکے حسن بن صباح نے اس میں دنیاوی جنت قائم کی اور مصر کی فاطمی سطنت پر قابو پانے کے لئے 525ھ میں اپنے فدائیوں کے ذریعے مستعلی کے بیٹے آخرکو اس کے دونوں بیٹوں سمیت قتل کرادیا۔اس کے جانشین رکن الدین خورشا کی حکومت قلعہ پر اس وقت تک قائم رہی جب تک منگول جنگجو ہلاکو خان نے اس پر قبضہ نہ کرلیا، اس کے بعد یہ اسماعیلی دنیا بھر میں پھیل گئے اور اب تک دنیا کے مختلف خطوں میں پائے جاتے ہیں ۔ (4) شامى اسماعيلى : یہ فاطمیوں کا ذیلی گروہ ’نزاری‘ ہیں ۔اُنہیں کوئی بڑی سلطنت قائم کرنے کا موقع نہ مل سکا، لیکن اپنے علاقوں اور محلوں میں اپنے عقائد کا پرچار کرتے رہے۔ قدموس، مصیاف، بانیاس، خوابی اور کہف کے علاوہ منطقة سلمية میں یہ ابھی تک پائے جاتے ہیں ۔ ان کی اہم شخصیت راشد الدین سنان ہے، جس کا لقب شيخ الجيل ہے۔ یہ اپنے عقائد وتصرفات میں حسن بن صباح سے ملتا جلتا شخص تھا۔اس نے سنانی مذہب کی بنا ڈالی اور اسماعیلی عقائد میں ’عقیدہ تناسخ‘ کا بھی اضافہ کیا۔ (5)بوهره اسماعيلى:یہ فاطمی اسماعیلیوں کا ذیلی گروہ مستعلی ہیں ، اِنہوں نے سیاست کو چھوڑ کر تجارت میں زیادہ دلچسپی لی۔ یمن میں قائم قدیم اسماعیلی حکومت (266ھ) سے ان کا سلسلہ چلتا ہے۔ یمن سے برصغیر پاک وہند میں داخل ہوئے۔ ہندوؤں سے بکثرت میل جول اختیار کیا۔ ’بوہرہ‘ ہندی لفظ ہے جس کا معنی تاجر ہے۔ ان کے دوگروہ ہیں ؛ داوٴدی بوہرے: