کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 146
ثقافت کو تحفظ مہیا کررہے … کو بھی ثانوی درجے کے تعلیمی ادارے تو پہلے ہی بنایا جاچکا ہے۔ امریکی سرکار کے مشوروں پر کار بند رہے توآہستہ آہستہ ان کا قومی کردار کم سے کم تر ہوتا جائے گا،یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ عرصے کے بعد مدارس کی طرح اُنہیں ملازمت کا تحفظ بھی حاصل نہ رہے۔ تعلیم کی اہمیت صاحبانِ فکر ونظر سے مخفی نہیں اور اس ساری صورتحال سے محب ِوطن حلقے شدید پریشانی واضطراب کا شکار ہیں !!
آغا خانیوں کو امریکہ بہادر نے یہ کردار کیونکر سونپا ہے، اس کے لئے ضرور ی ہے کہ ان کی تاریخ کے ساتھ ان کے عقائد سے بھی واقفیت حاصل کی جائے۔ جہاں تک پاکستان میں ان کی سرگرمیوں کا تعلق ہے، اس بارے میں ماہنامہ ’محدث‘ کے اپریل 2004ء کے شمارے کے علاوہ ، ماہنامہ ’آبِ حیات‘ لاہور کا شمارۂ فروری 2005ء اور ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘لاہور کا شمارۂ ستمبر2004ء کا مطالعہ مفید ہوگا۔ ایسے ہی آغا خانی بورڈ کے بارے میں تنظیم اساتذہ، پاکستان کا شائع کردہ ’قرطاسِ ابیض‘ کا مطالعہ بھی چشم کشا ہے۔ ہفت روزہ ’تکبیر‘ کراچی بھی 90 کی دھائی میں ان کی ملک دشمن سرگرمیوں پر ایک ضخیم اشاعت خاص پیش کرچکا ہے، جسے آغاخانیوں نے سیل پوائنٹس سے اُٹھاکر تلف کرنے کی کوششیں کی تھیں ۔ماہنامہ الحق، اکوڑہ خٹک میں 1987ء کے دوران مولانا عبید اللہ چترالی کے شمالی علاقہ جات میں آغا خانیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں بعض مضامین بھی اس سلسلے میں خصوصی مطالعہ کے قابل ہیں ۔
تاریخی طور پر 1858ء میں ممبئی کی انگریز عدالت کے فیصلہ کے ذریعے آغا خانیوں کو برصغیر میں اسماعیلیوں کا روحانی پیشوا قرار دیا گیا تھا، ایسے ہی انگریز گورنرجنرل ہند نے انگریز سرکار کی خدمات کے صلے میں انہیں ’پرنس‘،’ سر‘ اور ’ہزہائی نس‘ کا خطاب عطا کیا تھا۔ یورپی ممالک سے ان کے تعلقات اس قدر قوی ہیں کہ وہاں انہیں VVIP پروٹوکول دیا جاتا ہے اور پاکستان میں تو ان کا استقبال صدرِ مملکت کے درجے سے کم نہیں ہوتا۔مغربی تنظیمیں مثلاً CIDA، یوایس ایڈ، اقوامِ متحدہ کی یونی سیف وغیرہ اپنی امداد آغا خانیوں کے ہی حوالے کرتی ہیں اور وہ اپنے مذہبی عقائد کے فروغ کے لئے انہیں بالواسطہ استعمال کرتے ہیں ۔ این جی اوز کو منظم کرنے کے لئے آغا خان فاونڈیشن عالمی اداروں کی مدد سے ’این جی او ریسورس سنٹر‘ کے نام سے ایک ادارہ چلا رہی ہے جہاں اسی نام سے میگزین بھی شائع ہوتا ہے۔