کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 145
ادیان و فرق حافظ حسن مدنی ’آغا خانی‘… ایک اسماعیلی فرقہ آغا خانیوں کو قومی تعلیم میں سرکاری آرڈیننس(CXIV/2002)کی رو سے بڑا اہم کردار سونپا جا چکا ہے اور وفاقی وزیر تعلیم نے کہا ہے کہ اس آرڈیننس یا فیصلہ کے بارے میں پارلیمنٹ ہی حتمی فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔پارلیمنٹ سے اس موضوع پر رائے دہی کروانے کا مقصد غالباً یہ ہے کہ یہی ایسا فورم ہے جہاں ملکی و قومی مفاد سے بالاتر ہو کر صرف سیاسی گروپ بندی کی بنا پر قومی فیصلے کیے جاتے ہیں ۔ اور مشرف حکومت اس سے قبل بھی اپنے متعدد فیصلوں کو اسی پلیٹ فارم سے نافذ کرانے میں کامیاب رہی ہے۔ جہاں تک امتحانی بورڈز کا تعلق ہے تو اخباری ذرائع کے مطابق سندھ گورنمنٹ میں آغاخانیوں کے امتحانی بورڈز کو قبول کرلیا گیا ہے جبکہ پنجاب حکومت کے اختلاف کے باعث فی الوقت پرائیویٹ سکولوں ، کالجوں کو اس امر کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ آغا خاں بورڈ کے ساتھ الحاق کرسکیں ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سرکاری سکولوں میں پہلے ہی تعلیم کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ متوسط طبقے کے لوگ بھی اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل نہیں کراتے۔ اس لحاظ سے قومی ٹیلنٹ کا اہم ترین حصہ پرائیویٹ سکولوں میں ہی زیر تعلیم ہے اور اسی طبقہ کے پاس ہرقسم کے وسائل بھی میسر ہیں ۔ ایسے حالات میں پرائیویٹ سکولوں کا داخلی وجوہ کی بناپر ہی ممتاز حیثیت حاصل کرلینا، پھر آغا خان بورڈ کے ذریعے ان کو قومی او رعالمی سطح پرہر قسم کی پذیرائی میسر آجانا ایسے حقائق ہیں جن سے مستقبل قریب میں پاکستان کا تعلیمی وفکری منظرنامہ بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ اس حکومت کو مزید چند سال گزارنے کا موقع مل گیا تو سرکاری سکولوں کو قریب قریب وہی مقام حاصل ہوجائے گا جو اس وقت دینی مدارس کوحاصل ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے روایتی نظامِ تعلیم ’دینی مدارس‘ کو انگریز سرکار نے دیس نکالا دے کر نظامِ تعلیم سے اس کا اُصولی تعلق ہی منقطع کردیا، ایسے ہی موجودہ سرکاری سکولوں …جو بچی کچھی اسلامی