کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 143
اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے: (ويجمع بزاقه أي في فيه ويتفل) ”آپ لعاب کو اپنے دہن مبارک میں جمع کرتے اور اس پر تھتکارتے۔“ زیر ناف بال مونڈنے کی مدت اور حدبندی سوال: زیرناف بال مونڈنا واجب ہیں یا سنت؟ اور ان کے مونڈنے میں کتنی تاخیر کی جاسکتی ہے اوران کی مقدار کہاں تک ہے؟ (محمد صفدر محمدی،فیصل آباد) الجواب بعون الوہاب: نیل الاوطار میں ہے: وہو سنة بالاتفاق (1/123) یعنی زیر ناف بال مونڈنا بالاتفاق سنت ہے۔ (تیسیر العلام :1/69) بال مونڈنے میں چالیس روز تک تاخیر ہوسکتی ہے۔ حدیث میں ہے أن لانتركه أكثر من أربعين ليلة (رواہ مسلم) امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : معناه تركا لانتجاوز به أربعين لا أنه وقت لهم الترك أربعين قال والمختار أنه يضبط بالحاجة والطول فإذا طال حلق، انتهى۔ قلت بل المختار أنه يضبط بالأربعين التي ضبط بها رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فلا يجوز تجاوزها ولا يعد مخالفا للسنة من تركه القص ونحوه بعد الطول إلى انتهاء تلك الغاية (نیل الاوطار :1/125) ” اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں چالیس دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرنا چاہیے،اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے چالیس دن کی میعاد مقرر کر دی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ راجح بات یہ ہے کہ یہ معاملہ انسانی ضرورت اور بالوں کی طوالت پر منحصر ہے، جب زیادہ لمبے ہو جائیں تو منڈوا دینا چاہیے، میرے(شوکانی رحمۃ اللہ علیہ ) خیال میں راجح بات یہ ہے کہ چالیس دن کی حد متعین ہے جس کو رسول اللہ نے مقرر فرما دیا ہے ، لہٰذا اس سے تجاوز کرنا درست نہیں ہے ،اگر کوئی شخص بال زیادہ لمبے ہو جانے کے باوجود عرصہ چالیس دن تک تاخیر کر لیتا ہے تو وہ مخالف ِسنت شمار نہیں ہوتا۔“ مرد اور عورت کو مخصوص مقام کے اوپر اور اس کے اردگرد سے بال مونڈنے چاہئیں ۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المراد بالعانة: الشعر فوق الذكر وحواليه وكذلك الشعر الذي حول فرج المرأة ” اس سے مراد وہ بال ہیں جو مرد کے عضو کے اوپر اور اس کے ارد گرد ہیں ، ایسے ہی وہ بال جو عورت کی شرمگاہ کے ارد گرد ہوں ۔“ اس کے علاوہ بال مونڈنا شریعت میں ثابت نہیں ۔