کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 142
پرہیز کیا جائے اور مذکور حدیث: من علق تميمة فقد أشرك سے مراد جاہلی تعویذ خلاف شرع ہیں ،جس طرح کہ مسنداحمد میں سبب حدیث میں اس امر کی طرف اشارہ ہے۔ وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين بزعمهم فأبطلها الشرع (شرح السنہ: 12/158) ”یہ خرزات ہیں جنہیں اہل عرب اپنے بچوں پر لٹکایا کرتے تھے اور اپنے زعم کے مطابق ان کو اس کے ذریعہ نظر بد سے بچاتے تھے ۔پس شرع نے اس کو باطل ٹھہرایا۔“ مجوزین کے پیش نظر یہ حدیث بھی تھی، اس کے باوجود وہ جواز کے قائل ہیں ۔ اس سے بھی میرے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ تعویذ لکھنا شرک نہیں تاہم اس سے احتراز ہونا چاہئے والله أعلم بالصواب وعلمه أتم …اس موضوع پر پہلے میری تفصیلی گفتگو ’الاعتصام‘ میں چھپ چکی ہے، اس کی طرف مراجعت بھی مفید ہے۔ مریض پر شفا کے لئے تھتکارنا یا مریض کو پلانا ؟ سوال: پانی میں پھونک مارنا اور برتن میں سانس لینا منع ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سالن اور کھانے میں خود تھوکا تو پھر کیا پانی میں تھوک کر یا اُنگلی کے ذریعہ تھوک ڈال کر کسی مریض کو پلانا جائز ہے؟ (رانا محمد اسلم،مکتبہ اصحاب الحدیث، اُردو بازار) جواب: برتن میں سانس لینا اس وقت منع ہے جب آدمی کوئی شے پی رہا ہو۔ مستدرک حاکم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: لا يتنفس أحدكم في الإناء إذا كان يشرب منه (فتح الباری :1/255) جبکہ عام حالات میں سانس لینا منع نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانے وغیرہ میں لب ِمبارک ڈالنا آپ کا معجزہ ہے۔ عامة الناس کو اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا اور محدثین رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے واقعات کو علاماتِ نبوت میں ذکر کیا ہے۔ ایسے ہی اُنگلی کو مٹی اور تھوک لگا کر تکلیف دہ جگہ پر لگانا سنت سے ثابت ہے۔ (متفق علیہ) جہاں تک تھوک کو پانی میں ڈال کر پلانے کا تعلق ہے تو یہ سنت سے ثابت نہیں ،البتہ پھونک کے ساتھ معمولی سا اثر رطوبت کا ہو تو یہ لفظ نفث کی تعریف میں شامل ہے جو منع نہیں ۔ (تفصیل کے ملاحظہ ہو عون المعبود :4/12) ایسے ہی آدمی پر دم کی صورت میں تھوکنے کا جواز ہے۔ سنن ابوداوٴد میں ہے: (ويتفل حتى برأ ) ” آپ اس پر تھتکارتے یہاں تک کہ وہ تندرست ہوگیا۔“