کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 141
جواب: عورت کے لئے بحالت ِنماز پاوٴں کی پشت کو ڈھانپنے کے بارے میں سنن ابوداوٴد وغیرہ میں جو روایت ہے، وہ مرفوع اور موقوف دونوں طرح سے باعتبار سند کے ضعیف ہے اور قابل حجت نہیں ۔ اس کو نبی کریم تک مرفوع کرنا عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار کی غلطی ہے جبکہ یہ موقوفاً بھی درست نہیں ،کیونکہ اس کا مدار اُمّ محمد پر ہے اور وہ مجہولہ ہے اور حاکم کی روایت میں عن امہ کے بجائے عن ابیہ کے الفاظ ہیں ۔ لیکن اس کے باپ کا ذکرکتابوں میں نہیں ملتا شاید یہ حاکم یا ناقلین سے کسی کا وہم ہے۔ بہرصورت اس بارے میں بطورِ نص کوئی صحیح حدیث موجود نہیں اور جو لوگ وجوب کے قائل ہیں ، ان کا انحصار اسی کمزور دلیل پر ہے جو ناقابل التفات ہے، لہٰذا مسئلہ ہذا میں تشدد کے پہلو کو اختیار کرنا درست بات نہیں ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: إرواء الغليل از شیخ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ (1/304) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان اور تعویذ پہننا ؟ سوال: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :التمائم ماعلق قبل نزول البلاء پهر فرمايا : وأما ما علق بعد نزول البلاء فليس بتميمة (بیہقی: 9/350 ومستدرک حاکم: 4/217) تو کیا اس روایت سے قرآنی تعویذ لٹکانا ثابت ہوتا ہے یا ہر قسم کے ’تمائم‘ شرک ہی ہیں … قال عليه السلام: من علق تميمة فقد أشرك جواب: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کے الفاظ یوں ہیں : قالت عائشة: ليس التميمة ما يعلق بعد نزول البلاء ولكن التميمة ما علق قبل نزول البلاء ليدفع به مقادير الله (شرح السنة :12/58) ”تمیمہ وہ (منع) نہیں جس کو بلا نازل ہونے کے بعد لٹکایا جائے لیکن وہ تمیمہ (منع ) ہے جس کو بلا لاحق ہونے سے قبل لٹکایا جائے تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کی تقدیر کو ٹالے۔ “ مطلب یہ ہے کہ تقدیر کے واقع ہونے سے قبل ہی اس کے دفاع کی تدبیر کرنا عقلمند شخص کو لائق نہیں جبکہ بلا نازل ہونے کے بعد اس سے خلاصی کی تدبیر کرنا مشروع ہے، چاہے وہ تعویذ کے ذریعہ ہو۔ تعویذ کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے: ایک جماعت اس کے جواز کی قائل ہے جبکہ دوسری جماعت تعویذات کے عدمِ جواز کی قائل ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا شمار بھی ان لوگوں میں ہے جو تعویذ کو جائز سمجھتے ہیں ۔ میرے نزدیک احتیاط اس میں ہے کہ تعویذات سے مطلقاً