کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 140
ولا ميراث: قال ابن عبد البر: وقد أهل الفتوى من الأمصار على أنه لا يحرم على الزاني تزوّج من زنىٰ بها فنكاح أمها وابنتها أجوز (9/157) ”جمہور نے اس بات کا انکار کیا ہے کہ زنا کے ذریعے حرمت ثابت ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ شرع میں نکاح کا اطلاق باقاعدہ عقد پر ہوتا ہے نہ کہ مجرد وطی پر اور اسی طرح زنا میں حق مہر، عدت اور میراث بھی نہیں ۔ حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل امصار میں سے اصحابِ فتویٰ اس بات پر متفق ہیں کہ زانی نے جس عورت سے زنا کا ارتکاب کیا ہے، اس کے لئے اس سے نکاح کرنا حرام نہیں تو اس کی ماں اور بیٹی سے نکاح کرنا بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔“ تو پھر مس بالشہوت سے بطریق اولیٰ حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ لہٰذا باپ کا اپنی بہو کے ہونٹوں کا بوسہ لینے سے حرمت ِمصاہرت کا اثبات نہیں ہوگا۔ تعجب ہے کہ ایک طرف مفتی صاحب نے ہونٹوں پر بوسہ لینے سے حرمت ِمصاہرت کا فتویٰ صادر فرمایا ہے جبکہ دوسری جانب بیٹے کو طلاق کا حکم دے رہے ہیں ۔ بقول ان کے جب وہ محرم بن گئی تو پھر طلاق کا حکم چہ معنی دارد؟ مفتی صاحب کا دعویٰ کہ” ہونٹوں پربوسہ لینے سے مطلق حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔“ یہ بلا دلیل بات ہے جس کی کوئی اصل نہیں ۔ اُمید ہے موصوف تقلیدی تعصب سے ہٹ کر اپنے فتویٰ پرنظرثانی فرمائیں گے۔ نماز میں عورت کا پاؤں ڈھانپنا سوال: میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں اُصول الدین کی طالبہ ہوں ۔ دورانِ تعلیم مجھے اپنے غیر ملکی اساتذہ کرام اور ساتھی طالبات کا پاوٴں کو ڈھانپنے کے بارے میں اس موقف کا علم ہوا کہ عورت کا پاوٴں ڈھانپنا، بالخصوص نماز میں بے حد ضروری ہے۔ ان لوگوں کا عمل بھی اسی کے مطابق ہے ،مگر پاکستان میں اس کا اہتمام نہیں ۔ بعد ازاں میں نے فتاویٰ المرأة المسلمةکا مطالعہ کیا جس کے باب كتاب لباس المرأة في الصلاة میں شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کی رائے اس طرح سے درج ہے : وأما القدمان فيجب سترهما على كل حال في الصلاة ولو لم يكن عندها رجال لأنه المرأة كلها عورة في الصلاة إلا وجهها (سنن ابی داود، کتاب الصلوٰة، تحفة 85 حدیث 639،640 ) اس سلسلے میں ہماری شرعی رہنمائی فرمائیے۔ جزاکم اللہ (سمیعہ عزیزدختر عبدالعزیز حنیف، اسلام آباد)