کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 139
فتویٰ جامعہ اشرفیہ، لاہور جواب: چونکہ بوسہ ہونٹوں پر لیا گیا ہے ، اس لئے صورتِ مسئولہ میں حرمت ِمصاہرت (سسرال کی بنا پر ہونے والی حرمت) ثابت ہوجائے گی۔ چنانچہ جس عورت کا بوسہ لیا گیا ہے وہ بوسہ لینے والے کے بیٹے پر حرام ہوگئی۔ اب دونوں کے اکٹھے رہنے یا صلح و رجوع کی کوئی صورت نہیں پس بیٹے پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر فارغ کردے۔ فقہا نے تصریح کی ہے کہ اگر بوسہ ہونٹوں پر لیا گیا ہو تو مطلقاً حرمت ِمصاہرت ثابت ہوجائے گی،اگرچہ بوسہ لینے والا شہوت نہ ہونے کا دعویٰ کرے۔ عبدالخالق (دارالافتاء، جامعہ اشرفیہ لاہور ) فتویٰ کا تعاقب از مفتی جامعہ لاہو رالاسلامیہ جامعہ اشرفیہ لاہو رکے مفتی صاحب کا مندرجہ بالا فتویٰ محل نظر ہے ۔ اہل علم کے راجح اور محقق مسلک کے مطابق مس بالشہوت سے بھی حرمت ِمصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔ چنانچہ سنن دارقطنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ہے کہ لا يفسد الحلال الحرام یعنی ”حرام کے ارتکاب سے حلال شے فاسد نہیں ہوتی۔“ نیز امام دارقطنی اپنی سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں : لايحرم الحرام الحلال ”حرام، حلال کو حرام نہیں کرتا۔“ اس کی سند کے متعلق صاحب التعليق المغني فرماتے ہیں : وإسناده أصلح من حديث عائشة یعنی ”اس حدیث کی سند حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے زیادہ درست ہے۔“ اور فتح الباری (9/156) میں ہے : وقد أخرجه ابن ماجه طرفا من حديث ابن عمر: لا يحرم الحرام الحلال وإسناده أصلح من أوّل صحیح بخاری کے باب ما يحل من النساء و ما يحرم کے تحت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے: إذا زنٰى بأخت امرأته لم يحرم عليه امرأته یعنی ”جب کوئی اپنی سالی سے زنا کرے تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی۔ “ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح کی ہے کہ جمہور کا مسلک یہی ہے ، فتح الباری میں فرماتے ہیں وأبى ذلك الجمهور وحجتهم أن النكاح في الشرع إنما يطلق على المعقود عليها لا على مجرد الوطي وأيضا فالزنا لا صداق فيه ولا عدة